بینہ ۶
عارف کو عالمِ وجُوب کے مشاہدے کے دوران رویتِ قلبی نصیب ہوتی ہے رویتِ بصری کا دنیا میں وقوع محال ہے کیونکہ اگر رویتِ قلبی کا اثبات نہ کیا جائے تو عین الیقین اور حق الیقین کے معنی واضح نہیں ہوسکتے یہ مسئلہ صوفیاء کے نزدیک مختلف فیہ ہے بعض نے مرتبہِ وجوب کے ادراک بلکہ درک ِ ادراک کا اثبات فرمایا ہے اور بعض نے سکوت اور بعض نے انکار سے کام لیا ہے تفصیلات آئندہ پر چھوڑ دی جاتی ہیں واللہُ الْمُوَفِّقُ
عارف کا مرتبہِ حقُ الیقین
حضرت امامِ ربّانی قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ عارف حقُ الیقین کے مرتبے میں "عین نادانی میں باشعور ہوتا ہے اور عین حیرت میں باحضور" اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس کے اعتبار سے باشعور ہوتا ہے اور رپوح کے اعتبار سے باحضور ہوتا ہے کیونکہ نزول کے وقت عالم اس کے نفس کا مشہود ہوتا ہے اس لیے نفس کے اعتبار سے باشعور ہوتا ہے اور عروج کے وقت وجودِ عالم سے حیرت میں ہوتا ہے اور عالمِ وجوب سے حضور میں ہوتا ہے اس لیے روح کے اعتبار سے باحضور ہوتا ہے اس فرمان کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ عارف رُوح کے اعتبار سے وجودِ عالم سے حیرت و نادانی میں ہوتا ہے اور عالمِ وجوب کے مشاہدے میں رُوح کے اعتبار سے حضور میں ہوتا ہے۔
تجلّی آفاقی و انفسی
سالک جب سیرِ انفسی کے دوران ولایتِ صُغریٰ (ولایاتِ ظلّیہ) کے مقام کے ساتھ ممتاز ہوتا ہے تو وہ جو تجلی بھی دیکھتا ہے اپنی ذات میں دیکھتا ہے نیز معرفت یا حیرت بھی اپنی ذات میں ہی ملاحظہ کرتا ہے اور اس تجلی میں اسکی حیرت کی وجہ یہ ہے کہ وہ عالم وجوب کی بے کیف تجلی ہوتی ہے جو سالک کے عدمِ ادراک کی وجہ سے سببِ حیرت بن جاتی ہے اس کو تجلی انفسی کہتے ہیں اس مقام میں سالک کوشش کرتا ہے کہ تجلی آفاقی (جو تجلی انفسی کا ظل ہے) منقطع ہوجائے کیونکہ جب تک تجلی آفاقی منقطع نہ ہوجائے فنائے کامل حاصل نہیں ہوتی اور جب فنا ناقص ہوگی تو بقا بھی ناقص ہوگی اس لیے بقا بقدر فنا ہوا کرتی ہے اور فنائے مطلق و مطلق فنا میں فرق یہ ہے کہ فنائے مطلق فنائے تام ہے اور مطلق فنا فنائے ناقص ہے فنائے مطلق میں سالک کو ماسویٰ کا نسیانِ تام ہوجاتا ہے اور اسکا لطیفہ اپنے مبداءِ فیض تک پہنچ جاتا ہے جبکہ مطلق فنا میں ایسا نہیں ہوتا۔ مولانا روم مستِ بادہِ قیوم علیہ الرحمۃ نے فرمایا
بے فنائے مطلق و جذبِ قوی
کَے حریم وَصل را محرم شوی
واضح ہو کہ عارف کا یہ شہود سیرِ انفسی کے دوران ولایتِ صُغریٰ (جسکو ولایتِ ظلیہ بھی کہتے ہیں) کے حصول کے وقت ہوتا ہے لیکن جس وقت عارف کمالاتِ ولایتِ نبوت سے مشرف ہوتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ شہودِ انفسی بھی ظِلالِ مطلوب سے ایک ظِلّ ہے اور مطلوب ابھی ماوراء ہے۔
مطلوب آفاق و انفس سے وراء ہے
حضرت امام ربانی قدس سرہ نے حضرت خواجہ بزرگ خواجہ نقشبند اویسی بُخاری رضی اللہ عنہ کا جو تائیدی قول نقل فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے دونوں بزرگ اس وقت کمالاتِ ولایت کے مقام میں تھے اور شہودِ انفسی کو اصل اور مقصود جانتے تھے لیکن اسکے بعد جب کمالاتِ ولایتِ نبّوت کے مرتبے سے مشرف ہوئے تو حضرت امام ربّانی نے فرمایا "مطلوب ورائے آفاق و انفس است" یعنی مطلوب آفاق اور انفس سے بہت آگے ہے اور حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا "ہرچہ دیدہ شد و دانستہ شد آں ہمہ غیر است" یعنی جو کچھ دیکھا گیا اور جانا گیا وہ سب کچھ غیر(غیرِ خدا) ہے۔
هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر