۱۳۹۲ آذر ۱۲, سه‌شنبه

مکتوب ششم قسط ۴

متن


وعلمی کہ پیش از چنین جہالت حاصل شود از حیز اعتبار خارج است باوجودِ آن اگر علم است در خود است و اگر شہود است ہم در خود و اگر معرفت است یا حیرت نیز در خود است تازمانیکہ نظر در بیرون است بی حاصل است اگرچہ در خود ہم نظر داشتہ باشد نظر از بیرون بالکل منقطع می باید کہ شود حضرت خواجہ بزرگ قدس اللہ سرہ میفرمایند کہ اہل اللہ بعد از فنا و بقا ہر چہ می بینند در خود می بینند و ہر چہ مے شناسند در خود مے شناسند و حیرتِ ایشان در وجودِ خود است

ترجمہ: اور وہ علم جو اس قسم کی جہالت سے پہلے حاصل ہوتا ہے وہ احاطہِ اعتبار سے خارج ہے (یعنی اعتبار کے لائق نہیں ہے) اس حالت کے باوجود اگر علم ہے تو اپنے آپ میں ہے اور اگر شہُود ہے تو وہ بھی اپنے آپ میں ہے اور اگر معرفت یا حیرت ہے تو وہ بھی اپنے آپ میں ہی ہے جب تک نظر باہر کی اشیاء میں ہے بے حاصل(بیکار) ہے اگرچہ اپنے آپ پر بھی نظر رکھتا ہو بیرونی اشیاء سے نظر بالکل منقطع ہوجانی چاہئیے حضرت خواجہ بزرگ (خواجہ بہاوالدین نقشبند بخاری قدس اللہ سرہ) فرماتے ہیں کہ اہلُ اللہ فنا و بقا کے بعد جو کچھ دیکھتے ہیں اور انکی حیرت اپنے وجود ہی میں ہے۔

شرح


عارف دو قسم کے علم رکھتا ہے اولاً ماسِوَی اللہ کا علم ثانیاً ذاتِ حق تعالیٰ کا علم آپ فرماتے ہیں کہ جو علم حیرت و جہل سے پہلے حاصل ہوتا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ ماسِوَی اللہ کا وہ علم جو فنا سے قبل ہے وہ تو ہر ایک کو حاصل ہے ہوتا ہے لیکن بے حاصل ہوتا ہے یہاں عارف کے علم سے مُراد وہ علم ہے جو عارف کو فنا اور نسیانِ ماسِوَی اللہ کے بعد حاصل ہوتا ہے اور وہ ذات حق تعالیٰ کا علم ہے۔

بینہ ۵


واضح ہو کہ ذات حق تعالیٰ کے علم سے عالمِ وجوب کا مشاھدہ یا رویتِ قلبی مُراد ہے اور حدیث لَاَتَتَفَکَّرُوْا فِی الْخَالِقِ[۱](ترجمہ: خدا کی ذات میں مت گور و فکر کرو!) میں جس تفکُّر سے نہی وارد ہے وہ تفکّپر فی الذّات ہے یا کیفیت، مثال اور مقدار کا تفکر ہے جس کو فارسی میں تفکر چونی و چندی کہا گیا ہے۔ عارف جب فنا و بقا کی منزلیں طے کرلیتا ہے وہ تفکر بے کیف و کم اور ادراکِ بے چون کی صلاحیت سے نوازا جاتا ہے اور یہ رپوح کا مرتبہِ کمال ہے جیسا کہ عالمِ ارواح بے چپون ہے اور رُوحوں کو عالمِ ارواح میں مشاہدہ کی دولت حاصل تھی اور حدیث تَفَکُّرُ سَاعَۃِِ خَیْرُُ مِّنْ قِیَامِ لَیْلَۃِِ[۲](ترجمہ: فکر کی ایک ساعت تمام شب کے قیام سے بہتر ہے) میں تفکر سے مراد تفکر بے چونی ہے جس کو تفکر فی الصفات کہتے ہیں۔

عارف کا مرتبہِ نزول


عارف کے مرتبہِ نزول کی دو قسمیں ہیں۔

پہلا نزول


کمالاتِ ولایت کے حصول کے وقت ہوتا ہے جبکہ عارف کا نفس عروج کے بعد نزول کرتا ہے اور اسکی روح عروج میں رہتی ہے اس حالت میں نفس ماسِوَی اللہ کا مشاھدہ کرتا ہے اور رپوحِ عالمِ وُجوب کے مشاھدے میں مصروف رہتی ہے۔

دوسرا نزول


کمالاتِ نبوت کے حصول کے وقت ہوتا ہے جبکہ عارف کا نفس اور اسکی رُوح دونوں نزول کرتے ہیں اور اسکا ایمانِ شہودی دوبارہ ایمانِ غیبی کے ساتھ تبدیل ہوجاتا ہے اس حالت میں عارف مُتخلَّقْ بِاَخْلاقِ اللہ ہوجاتا ہے واجب اور ممکن ہر دو اس کے معلوم ہوتے ہیں یعنی ذاتِ حق اور ماسِویٰ دونوں کیساتھ اس کا علمی تعلق اور رابطہ ہوتا ہے اس مرتبے میں عارف بادشاہ کے مُقرب وزیر کیطرح ہوتا ہے جو بادشاہ کی حضوری میں بیٹھ کر اُمورِ عالم کی تنظیم پر بھی مامور ہوتا ہے اور جب چاہتا ہے بادشاہ کو بھی دیکھ لیتا ہے۔
_________________________________________________
۱۔ کنز العمال ص ۱۰۶ ج ۳
۲۔ کنزالعمال ص ۱۰۷ ج ۳

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر