۱۳۹۲ آذر ۲۹, جمعه

مکتوب ششم قسط ۶

 

 

متن


عجب کاریست اولاً ہربلاومصیبت کہ واقع میشد باعثِ سرور و فرحت میشد و ھَلْ مِنْ مَّزِیْد میگفت وہرچہ از اَمتعہ دنیویہ کم میشد خوش می آمد و این قسم را آرزو میکرد و حالا کہ بعالمِ اسباب فرود آوردند و نظر بر عجز و افتقارِ خود افتاد اگر اندک ضررے لاحق میشود در اول وہلہ نوعی از حزن رو میدھد ہرچند بسرعت زائل میشود و ھیچ نمے ماند وھمچنین اگر دعا مے کرد از برائے دفع بلاومصیبت مقصود ازو نہ رفع آن بود بلکہ امتثال امر اُدْعُوْنِیْ بود حالا مقصود از دعا رفع بلیہ و مصائب است و خوف و حزینکہ زائل شدہ بودند باز رجوع کردند و معلوم شد کہ آن از سُکر بود در صحو ہرچہ عوام الناس را ھست این را ہست از عجز و افتقار و خوف و حزن و غم و شادی در ابتدا ھم کہ مقصود از دعا رفعِ بلا نبود و دل را این معنے خوش نمی آمد لیکن حال غالب بود بخاطر میگذشت کہ دعاءِ انبیاء ازین قبیل نبود کہ حصولِ مراد بخواھند حالاکہ بآن حالت مشرف ساختند و حقیقتِ کار را واضح گردانیدند معلوم شد کہ دعاہاءِ انبیاء علیھم الصلوات والتسلیمات از سرِ عجز و افتقار و خوف و حزن بود نہ بمجرد امتثالِ امر بعضے امور کہ رو میدہد بحسبِ امرگاہ گاہ بعرضِ آن گُستاخی مے نماید۔

ترجمہ: یہ عجیب معاملہ ہے کہ پہلے جو بلا و مصیبت بھی واقع ہوتی وہ فرحت و خوشی کا باعث ہوتی تھی اور یہ فقیر ھَل من مزید (کیا اور زیادہ بھی ہے) کہتا تھا اور دنیاوی ساز و سامان میں سے جو کچھ بھی کم ہوجاتا تھا اچھا معلوم ہوتا تھا اور یہ فقیر اسی قسم کی خواہش کرتا تھا اور اب جبکہ عالمِ اسباب میں نزول واقع ہوا ہے اور اپنی عاجزی و محتاجی پر نگاہ پڑی ہے اگر تھوڑا سا بھی نقصان لاحق ہوجاتا ہے تو پہلے ہی جھٹکے میں ایک قسم کا رنج و غم پیدا ہوجاتا ہے اگرچہ وہ جلد ہی دور ہوجاتا ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور اسی طرح اگر پہلے یہ عاجز بلاومصیبت کے دور ہونے کیلئے دُعا کرتا تھا تو اس سے بلا ومصیبت کو دور کرنا مقصود نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے حُکم "تم مجھ سے مانگو " کی تعمیل و فرمانبردادی بجالاتا تھا لیکن اب دُعا سے مقصود بلاوں اور مصیبتوں کا رفع کرنا ہےخوف اور غم جو زائل ہوگئے تھے واپس آجاتے ہیں اور معلوم ہوا کہ یوہ سُکر میں سے تھا صحو میں جو کچھ عوام الناس کیلئے ہے اسکیلئے ہے۔ شروعات میں  عاجزی و انکساری اور خوف و غم اور خوشی و مسرت میں مقصود دعا بلا ٹالنے کیلئے نا تھا اور دل کو یہ معنی پسند نہیں آتا تھا(کہ رفع بلا کیلئے دعا کی جائے) لیکن حال غالب تھا دل میں گزرتا تھا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اجمعین کی دعا اس قبیل سے نہ تھی کہ مراد حاصل کرنا چاہتے تھے ابھی اس حالت سے مشرف کردیا ہے اور کام کی حقیقت کو واضح کروادیا ہے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہم السلام اجمعین کی دعائیں عاجزی و بے بسی اور خوف و غم سے رہائی اور دور رہنے کیلئے تھیں نہ کہ محص تعمیل حُکم کیلئے چند امور جو کہ فقیر پر ظاہر ہورہے ہیں حسب عادت انکو عرض کرنے کی گستاخی کررہا ہے۔

شرح

سطورِ بالا میں عارف کی وہ کیفیات بیان کی گئی ہیں جو عروج و نزول کے مراتب میں سیر کے دوران ظاہر ہوتی ہیں اس لیے سالک عروج کے وقت چونکہ عالمِ وجوب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس لیے دنیا و مافیہا سے بے خبر و بے فکر ہوجاتا ہے اس مقام میں دنیاوی مصائب و تکالیف اس کیلئے عالمِ وجوب کی طرف مزید توجہ اور ترقی کا سبب بن جاتی ہیں لیکن نزولی مرتبے میں چونکہ عالمِ اسباب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس لیے بلا کو بلا اور مصیبت کو مصیبت سمجھتا ہے اسی طرح عارف جب عروج کے وقت دعا کرتا ہے تو اسکا مقصد دعا سے دفع بلا نہیں ہوتا صرف اللہ کے حُکم اُدْعُوْنِیْ[۱](مجھ سے مانگو) کی تعمیل مقصود ہوتی ہے اس وقت اس کا گمان یہ ہوتا ہے کہ انبیاءِ کرام کی دُعاوں کا مقصد بھی دفع بلاومصیبت نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ بھی صرف تعمیل حُکم کیلئے دعائیں مانگتے تھے لیکن عارف کا نزول اس پر واضح کردیتا ہے کہ ان کا مقصد صرف تعمیل حُکم نہیں  بلکہ واقعتًا مصائب و تکالیف رفع کرانا بھی مقصود ہوتا ہے کیونکہ عالمِ اسباب میں عوام جس چیز کے محتاج ہیں صحو اور نزول کے مرتبے میں خواص بھی اسکی احتیاج رکھتے ہیں کیونکہ ان کی نظر عالمِ اسباب پر ہوتی ہے اور عالمِ اسباب کا یہی تقاضا ہے۔
_____________________________________
۱۔ المومن ۶۰

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر