خواجہ بہاء الدین نقشبند اویسی
علیہ الرحمۃ
گو آپ نے ظاہری طور پر طریقت کی تعلیم و تربیت حضرت سید امیر کلال سے حاصل کی لیکن روحانی طور پر آپکی تربیت حضرت قطب عالم عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ نے اویسی طریقہ پر فرمائی۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں میں اوائل احوال میں جذبات و بیقراری کے عالم میں راتوں کو اطراف بخارا میں پھرا کرتا تھا اور ہر مزار پر جاتا تھا۔ ایک رات میں تین مزارات پر گیا۔ آخر میں جس بزرگ کے مزار پر گیا وہاں حالت بے خودی میں میں نے دیکھا کہ قبلہ کی جانب سے دیوار شق ہوگئی اور ایک بڑا تخت ظاہر ہوا جس پر ایک بزرگ تشریف فرما تھے۔ الغرض ایک شخص نے مجھے بتایا کہ یہ حضرت عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ میں نے حضرت خواجہ کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دیا اور وہ ارشادات فرمائے جو سلوک کے ابتداء اور درمیان و انتہا سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی مکمل سلوک کی تعلیم دیدی۔ اس موقعہ پر تاکیدی طور پر آپ نے مجھے ارشاد فرمایا استقامت سے شریعت کے شاہراہ پر چلنا۔ کبھی اس سے قدم باہر نہ نکالنا۔ عزیمت اور سنت پر عمل کرنا اور بدعت سے دور رہنا۔ اسی لیے مدت العمر آپ شریعت و سنت پر کاربند رہے اور اتباع شریعت اور رسم و بدعت سے نفرت طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی امتیازی علامات ہیں۔ نقشبندی سلسلہ آپ کی طرف منسوب ہے۔ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی تین اصطلاحات وقوف زمانی، وقوف عددی اور وقوف قلبی شاہ نقشبند قدس سرہ نے مقرر فرمائی ہیں اور آپ اویسی بھی ہیں کہ آپ کو روحانی نسب حضرت خواجہ عبدالخالق سے حاصل ہوئی۔
آپ کا وصال بروز پیر ۳ ربیع الاول ۷۹۱ ہجری میں ۷۳ برس کی عمر میں قصر عارفاں میں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مزار شریف قصر عارفاں نزد بخارا میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ مشہور یہ ہے کہ حضرت نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازہ کے سامنے یہ شعر پڑھا جائے
مفلسانیم آمدہ در کوئے تو
شیئا للہ از جمال روئے تو
ترجمہ: میرے مولیٰ میں ایک مفلس کی حیثیت سے آپکی بارگاہ میں حاضر ہوا
ہوں، خدارا اپنا جلوہ جہاں آرا مجھے دکھادے۔شیئا للہ از جمال روئے تو
شیخ علاؤالدین عطار
رحمۃ اللہ علیہ
حضرت علاؤالدین قدس سرہ خواجۂ خواجگان حضرت بہاؤالدین نقشبند بخاری قدس سرہ کے خلیفہ اول، داماد اور جانشین ہیں۔ لڑکپن ہی سے آپ پر حضرت شاہ نقشبند کی خصوصی نظر عنایت رہی۔ درجہ کمال پر فائز ہونے کے بعد اپنے سامنے ہی طالبان طریقت کی تعلیم آپ سے متعلق کردی تھی۔ حضرت شیخ قدس سرہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتباع سنت اور عمل بہ حزیمت کا خصوصی اہتمام رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نامور علماء کرام نے بھی آپ کی طرف رجوع کیا۔ علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر اور مختلف علوم و فنون میں مثالی درسی کتب کے مصنف حضرت علامہ شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے متعلق فرماتے ہیں۔ ”و اللہ ما عرفت الحق سبحانہ وتعالیٰ کما ینبغی مالم اصل الیٰ خدمۃ العطار البخاری“ کہ خدا کی قسم میں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو جیسا چاہیے نہیں پہچانا تھا جب تک کہ میں حضرت علاؤالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا۔
بروز بدھ ۲۰ رجب المرجب ۸۰۴ ہجری کو اس فانی جہاں سے کوچ فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مزار مبارک موضع جفانیاں ماوراء النہر کے علاقہ میں ہے۔
هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر