حَیرت و جَہل
حَیرت و جَہل سے مُراد اشیائے کائنات سے لاتعلقی و بے خبری ہے جب کثرتِ ذکر اور فرطِ مُحبت کے غلبے سے عارف اپنے محبوبِ حقیقی کے مشاھدے میں ڈوب جاتا ہے اور محبوب کے سوا سب کچھ اس کی نظر سے پوشیدہ ہوجاتا ہے اور مرتبہِ احدیت میں محو ہو کر تجلی اسمِ ھُو کا مشاھدہ کرتے ہوئے انکشافِ حقیقت پر ہکا بکا رہ جاتا ہے تو اسی حالت کو حیرت و جہل کہا جاتا ہے لیکن یہ حیرت و جہل محمود ہے نہ کہ مذموم اسی کو صوفیاءِ کرام فنائے مُطلق مرتبہِ جمع اور اِدراکِ بسیط بھی کہتے ہیں۔ شطحیّاتِ اےولیاء مثلاً اَنَا الْحَقْ ، سُبْحَانِیْ مَااَعْظَمَ شَانِیْ، لَیْسَ جُبَّتِئ سِوَی اللہ سب اسی مرتبے کے اثرات و ثمرات ہیں اَلسُّکَاریٰ مَعْذُوْرُوْن کے مطابق ان کے ایسے اقوالِ سُکریہ کی تاویل کی ہے۔
بینہ ۳
حَیرت و جَہل کے دائمی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک عارف مرتبہ عُروج میں رہتا ہے اسے کوئی چیز یاد نہیں رہتی اور نسیانِ کُلی حاصل ہوجاتا ہے۔ اس کی بُری عادتیں اچھی عادتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں عارف سے اس کیفیت کا زائل نہ ہونا ہی دائمی حیرت و جہل ہے اگر سالک کو کبھی اشیائے کائنات بھول جائیں اور کبھی یاد آجائیں تو یہ فنائے مُطلق نہیں بلکہ مطلق فنا ہے جو فنائے ناقص کی علامت ہے کیونکہ علمُ الیقین اور عینُ الیقین ایک دوسرے کی نقیضیں ہیں۔ علمُ الیقین کے مرتبے میں وجُودِ بشری باقی ہوتا ہے اور عینُ الیقین کے مرتبے میں وجودِ بشری فانی ہوجاتا ہے اسی لیے مرتبہِ علم الیقین میں سالک کو ماسِویٰ کی یاد آتی رہتی ہے لیکن مرتبہِ عین الیقین میں سب یادیں ختم ہوجاتی ہیں اسی مرتبے میں سالک عالمِ وجوب کا مشاھدہ کرتا ہے جہاں اشیاء کے وجود و عَدم اور نفی و اِثبات کے متعلق لب کُشائی نہیں ہوسکتی یہاں تمام اشیاء سے بے خبری و نادانی لازمی امر ہے لیکن حقُ الیقین کا مرتبہ مذکورہ دونوں مرتبوں سے بہت بُلند ہے
مراتبِ یقین
علم الیقین
صوفیاءِ کرام نے مشاہدہِ ذات کے بارے میں یقین کو تین مرتبوں میں تقسیم فرمایا ہے علم الیقین اللہ تعالیٰ کی ان آیتوں اور نشانیوں کے مشاہدہ کرنے سے مُراد ہے جو اسکی قدرت پر دلالت کرتی ہیں سالک کو عُروج سے پہلے جو علم آتا ہے وہ علم الیقین کہلاتا ہے۔اس مرتبے میں وجودِ بشری عنصری باقی رہتا ہے اور سالک مقام فنا تک نہیں پہنچ سکتا۔ ان نشانیوں کے شہود کو سیرِ آفاقی کہتے ہیں اور یہ سب کچھ سالک اپنے باہر میں تلاش کرتا ہے تصوف کی اصطلاح میں اس کو سیر مستطیل بھی کہتے ہیں۔
یہ مشاہدہ چونکہ مقصود کی خبر نہیں دیتا اور سوائے نشانی اور دلیل کے اس کا کچھ حضور نہیں بخشتا اس لیے دھویں اور گرمی کے مشاہدہ کیطرح ہے جو آگ کے وجود پر رہنمائی کرتا ہے۔
عینُ الیقین
علمُ الیقین سے حق تعالیٰ کی قُدرت کا مشاہدہ کرنے کے بع جو مشاہدہ حق تعالیٰ کی ذات اور حُضور میں حاصل ہوتا ہے عینُ الیقین کہلاتا ہے اور وہ بعض کے نزدیک سالک کے اپنے نفس میں ہوتا ہے اسی لیے کہا گیا ہے مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ[۱](ترجمہ: جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا) اس ذاتی شہود اور حضور کو سیرِ انفسی کہتے ہیں اس کا نام سیرِ مُستدیر بھی ہے اس مشاہدہ میں سراسر حَیرت و جہل ہے علم کی اس میں گنجائش نہیں ہے اور سالک مَنْ عَرَفَ رَبَّہ کَلَ لِسَانُہ (ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچانا اسکی زبان گونگی ہوگئی) کا مِصداق ہوجاتا ہے۔
سالک اس مرتبے میں تکمیلِ عُروج کے وقت عالمِ وُجوب کا مشاہدہ کرتا ہے اس لیے اس کا وجود بشری عنصری باقی نہیں رہتا اور مقامِ فنائے مطلق حاصل ہوجاتا ہے۔
حَقُ الیقین
یہ مرتبہ پہلے دونوں مرتبوں سے بلند ہے جب عارف فنا کے بعد سَیر فی اللہ کے مقام میں بقابِاللہ سے مشرف ہوتا ہے اور اسکا مشاہدہ حقِ تعالیٰ کیساتھ ہوتا ہے نہ کہ عارف کے اپنے ساتھ اور بِیْ یَسْمَعُ وَبِیْ یُبصِرُ (ترجمہ: مجھ ہی سے سنتا اور مجھ ہی سے دیکھتا ہے) کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے تو فنائے مطلق حاصل کرنے کیلئے اس کو حقِ تعالیٰ محض اپنی عنایت سے ایک ایسا وجود (موہوبِ حقّانی) عطا کرتا ہے کہ عارف سُکر اور بیخودی سے رہائی پاکر صحو اور ہوشیاری میں آجاتا ہے اور اس مقام میں علم اور عین ایک دوسرے کا حجاب نہیں رہتے بلکہ عارف عین مشاہدہ کی حالت میں عالم اور عین علم کی حالت میں مشاہدہ کرنے والا ہوتا ہے یہ فنا کے بعد بقا باللہ کا مرتبہ ہے اس مرتبے کو تَخَلُّقْ بِاَخْلَاقِ اللہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہی مرتبہ حقُ الیقین کہلاتا ہے جہاں عروجی مراتب کی تکمیل کے بعد عارف مراتبِ نزول کی طرف مُستعد ہوتا ہے اس وقت اس کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم اور مَاسِوَی اللہ کا علم (دونوں علم) حاصل رہتے ہیں۔
بینہ ۴
یقین کے ان تینوں مرتبوں کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص مضبوط دلیلوں اور قرینوں سے یہ بات جان لے کہ آگ کی تاثیر جلانا ہے یہ علمُ الیقین ہے اور اگر کسی کو آگ میں جلتا ہوا دیکھ لے تو یہ عین الیقین ہے اور اگر خود آگ میں جل کر مرجائے تو یہ حقُ الیقین ہے۔
_____________________________________
۱۔ مرقاۃ ص ۱۵۰ ج ۱
هیچ نظری موجود نیست:
ارسال یک نظر