۱۳۹۲ آذر ۲۹, جمعه

مکتوب ششم مکمل متن

ملحوظہ


در بیانِ حصولِ جذبہ و سلوک و تربیت یافتن بہر دو صفتِ جمال و جلال و بیانِ فنا و بقا و مایتعلّق بذٰلک و بیانِ فوقیّتِ نسبتِ نقشبندیہ نیز بہ پیرِ بزرگوارِ خود نوشتہ اند۔


متن



عرضداشتِ کمترینِ بندگان احمد آنکہ مُرشد علیٰ الطلاق جلّ شانہ بہ برکتِ توجہ عالی بہر دو طریقِ جذبہ و سلوک تربیت فرمود و بہر دو صِفتِ جمال و جلال مربیّٰ ساخت حالا جمال عینِ جلال است و جلال عینِ جمال در بعضی حواشی رسالہِ قُدسیہ این عبارت را از مفہومِ صریح خود منحرف ساختہ بر مفہومِ موہومِ خود حمل کردہ است و عبارت محمول بر ظاہرِ خود ست قابلِ انحراف و تاویل نیست وعلامتِ این تربیّت متحقِّق شُدنست بمحبّتِ ذاتی پیش از تحقّقِ آن امکان ندارد و محبّتِ ذاتیّہ علامتِ فناست و فنا عبارت عبارت از نسیانِ ماسواست پس تازمانیکہ علُوم بتمام از ساحت سینہ رُفتہ نشود و بجہلِ مطلق متحقّق نشود از فنا بہرہ ندارد واین حیرت و جَہل دائمی است اِمکانِ زوال ندارد نہ آنست کہ گاہے حاصل شود گاہے زائل گردد غایۃ مافی الباب پیش از بقا جہالتِ محض است و بعد از بقا جہالت و علم باہم جمع اند در عینِ نادانی بہ شعور است ودر عینِ حَیرت بحضور کہ این موطنِ حقّ الیقین است کہ علم و عین حجابِ یکدیگر نیستند وعلمی کہ پیش از چنین جہالت حاصل شود از حیز اعتبار خارج است باوجودِ آن اگر علم است در خود است و اگر شہود است ہم در خود و اگر معرفت است یا حیرت نیز در خود است تازمانیکہ نظر در بیرون است بی حاصل است اگرچہ در خود ہم نظر داشتہ باشد نظر از بیرون بالکل منقطع می باید کہ شود حضرت خواجہ بزرگ قدس اللہ سرہ میفرمایند کہ اہل اللہ بعد از فنا و بقا ہر چہ می بینند در خود می بینند و ہر چہ مے شناسند در خود مے شناسند و حیرتِ ایشان در وجودِ خود است ازینجا ہم صریحاً مفہوم مے شود کہ شہود و معرفت و حیرت در نفس است و بس از بیرون ھیچکدامِ اینہا نیست تازمانیکہ یکے ازین ثلٰثہ در بیرون است اگرچہ در خود ھم دارد از فنا بہرہ ندارد فکیف البقا نہایتِ مرتبہ در فنا و بقا این است و این فنا مطلق است و مطلق فنا عام است و بقا باندازہِ فنا است لہٰذا بعضے اہل اللہ بعد از تحقق بفنا و بقا در بیرون نیز شہود دارند امّا نسبتِ این عزیزان فوق ھمہ نسبتہا است۔

                                  نہ ھرکہ آئینہ دارد سکندری داند  ::   نہ ھرکہ سر بتراشد قلندری داند

ھرگاہ از اکابرِ این سلسلہ بعد از قرون بسیار یکے یادوئ را باین نسبت مشرف سازند از سلاسلِ دیگر چہ گوید این نسبت حضرتِ خواجہ عبدالخالق غجدوانی است قدس سرہ و متمم و مکمل آن حضرتِ خواجہ خواجہا است اعنی حضرت خواجہ بہاء الدین المعروف بہ نقشبند قدس سرہ سرھم و از خلفاء ایشان حضرتِ خواجہ علاو الدین باین دولت مشرف شدہ بودند

                                                      این کار دولت است اکنون تا گردانند

عجب کاریست اولاً ہربلاومصیبت کہ واقع میشد باعثِ سرور و فرحت میشد و ھَلْ مِنْ مَّزِیْد میگفت وہرچہ از اَمتعہ دنیویہ کم میشد خوش می آمد و این قسم را آرزو میکرد و حالا کہ بعالمِ اسباب فرود آوردند و نظر بر عجز و افتقارِ خود افتاد اگر اندک ضررے لاحق میشود در اول وہلہ نوعی از حزن رو میدھد ہرچند بسرعت زائل میشود و ھیچ نمے ماند وھمچنین اگر دعا مے کرد از برائے دفع بلاومصیبت مقصود ازو نہ رفع آن بود بلکہ امتثال امر اُدْعُوْنِیْ بود حالا مقصود از دعا رفع بلیہ و مصائب است و خوف و حزینکہ زائل شدہ بودند باز رجوع کردند و معلوم شد کہ آن از سُکر بود در صحو ہرچہ عوام الناس را ھست این را ہست از عجز و افتقار و خوف و حزن و غم و شادی در ابتدا ھم کہ مقصود از دعا رفعِ بلا نبود و دل را این معنے خوش نمی آمد لیکن حال غالب بود بخاطر میگذشت کہ دعاءِ انبیاء ازین قبیل نبود کہ حصولِ مراد بخواھند حالاکہ بآن حالت مشرف ساختند و حقیقتِ کار را واضح گردانیدند معلوم شد کہ دعاہاءِ انبیاء علیھم الصلوات والتسلیمات از سرِ عجز و افتقار و خوف و حزن بود نہ بمجرد امتثالِ امر بعضے امور کہ رو میدہد بحسبِ امرگاہ گاہ بعرضِ آن گُستاخی مے نماید۔

مکتوب ششم قسط ۶

 

 

متن


عجب کاریست اولاً ہربلاومصیبت کہ واقع میشد باعثِ سرور و فرحت میشد و ھَلْ مِنْ مَّزِیْد میگفت وہرچہ از اَمتعہ دنیویہ کم میشد خوش می آمد و این قسم را آرزو میکرد و حالا کہ بعالمِ اسباب فرود آوردند و نظر بر عجز و افتقارِ خود افتاد اگر اندک ضررے لاحق میشود در اول وہلہ نوعی از حزن رو میدھد ہرچند بسرعت زائل میشود و ھیچ نمے ماند وھمچنین اگر دعا مے کرد از برائے دفع بلاومصیبت مقصود ازو نہ رفع آن بود بلکہ امتثال امر اُدْعُوْنِیْ بود حالا مقصود از دعا رفع بلیہ و مصائب است و خوف و حزینکہ زائل شدہ بودند باز رجوع کردند و معلوم شد کہ آن از سُکر بود در صحو ہرچہ عوام الناس را ھست این را ہست از عجز و افتقار و خوف و حزن و غم و شادی در ابتدا ھم کہ مقصود از دعا رفعِ بلا نبود و دل را این معنے خوش نمی آمد لیکن حال غالب بود بخاطر میگذشت کہ دعاءِ انبیاء ازین قبیل نبود کہ حصولِ مراد بخواھند حالاکہ بآن حالت مشرف ساختند و حقیقتِ کار را واضح گردانیدند معلوم شد کہ دعاہاءِ انبیاء علیھم الصلوات والتسلیمات از سرِ عجز و افتقار و خوف و حزن بود نہ بمجرد امتثالِ امر بعضے امور کہ رو میدہد بحسبِ امرگاہ گاہ بعرضِ آن گُستاخی مے نماید۔

ترجمہ: یہ عجیب معاملہ ہے کہ پہلے جو بلا و مصیبت بھی واقع ہوتی وہ فرحت و خوشی کا باعث ہوتی تھی اور یہ فقیر ھَل من مزید (کیا اور زیادہ بھی ہے) کہتا تھا اور دنیاوی ساز و سامان میں سے جو کچھ بھی کم ہوجاتا تھا اچھا معلوم ہوتا تھا اور یہ فقیر اسی قسم کی خواہش کرتا تھا اور اب جبکہ عالمِ اسباب میں نزول واقع ہوا ہے اور اپنی عاجزی و محتاجی پر نگاہ پڑی ہے اگر تھوڑا سا بھی نقصان لاحق ہوجاتا ہے تو پہلے ہی جھٹکے میں ایک قسم کا رنج و غم پیدا ہوجاتا ہے اگرچہ وہ جلد ہی دور ہوجاتا ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا اور اسی طرح اگر پہلے یہ عاجز بلاومصیبت کے دور ہونے کیلئے دُعا کرتا تھا تو اس سے بلا ومصیبت کو دور کرنا مقصود نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے حُکم "تم مجھ سے مانگو " کی تعمیل و فرمانبردادی بجالاتا تھا لیکن اب دُعا سے مقصود بلاوں اور مصیبتوں کا رفع کرنا ہےخوف اور غم جو زائل ہوگئے تھے واپس آجاتے ہیں اور معلوم ہوا کہ یوہ سُکر میں سے تھا صحو میں جو کچھ عوام الناس کیلئے ہے اسکیلئے ہے۔ شروعات میں  عاجزی و انکساری اور خوف و غم اور خوشی و مسرت میں مقصود دعا بلا ٹالنے کیلئے نا تھا اور دل کو یہ معنی پسند نہیں آتا تھا(کہ رفع بلا کیلئے دعا کی جائے) لیکن حال غالب تھا دل میں گزرتا تھا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اجمعین کی دعا اس قبیل سے نہ تھی کہ مراد حاصل کرنا چاہتے تھے ابھی اس حالت سے مشرف کردیا ہے اور کام کی حقیقت کو واضح کروادیا ہے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہم السلام اجمعین کی دعائیں عاجزی و بے بسی اور خوف و غم سے رہائی اور دور رہنے کیلئے تھیں نہ کہ محص تعمیل حُکم کیلئے چند امور جو کہ فقیر پر ظاہر ہورہے ہیں حسب عادت انکو عرض کرنے کی گستاخی کررہا ہے۔

شرح

سطورِ بالا میں عارف کی وہ کیفیات بیان کی گئی ہیں جو عروج و نزول کے مراتب میں سیر کے دوران ظاہر ہوتی ہیں اس لیے سالک عروج کے وقت چونکہ عالمِ وجوب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس لیے دنیا و مافیہا سے بے خبر و بے فکر ہوجاتا ہے اس مقام میں دنیاوی مصائب و تکالیف اس کیلئے عالمِ وجوب کی طرف مزید توجہ اور ترقی کا سبب بن جاتی ہیں لیکن نزولی مرتبے میں چونکہ عالمِ اسباب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس لیے بلا کو بلا اور مصیبت کو مصیبت سمجھتا ہے اسی طرح عارف جب عروج کے وقت دعا کرتا ہے تو اسکا مقصد دعا سے دفع بلا نہیں ہوتا صرف اللہ کے حُکم اُدْعُوْنِیْ[۱](مجھ سے مانگو) کی تعمیل مقصود ہوتی ہے اس وقت اس کا گمان یہ ہوتا ہے کہ انبیاءِ کرام کی دُعاوں کا مقصد بھی دفع بلاومصیبت نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ بھی صرف تعمیل حُکم کیلئے دعائیں مانگتے تھے لیکن عارف کا نزول اس پر واضح کردیتا ہے کہ ان کا مقصد صرف تعمیل حُکم نہیں  بلکہ واقعتًا مصائب و تکالیف رفع کرانا بھی مقصود ہوتا ہے کیونکہ عالمِ اسباب میں عوام جس چیز کے محتاج ہیں صحو اور نزول کے مرتبے میں خواص بھی اسکی احتیاج رکھتے ہیں کیونکہ ان کی نظر عالمِ اسباب پر ہوتی ہے اور عالمِ اسباب کا یہی تقاضا ہے۔
_____________________________________
۱۔ المومن ۶۰

مکتوب ششم قسط ۵ کی شرح

 

 

                               خواجہ بہاء الدین نقشبند اویسی 

                                          علیہ الرحمۃ


آپ کا اسم شریف محمد اور والد گرامی کا نام بھی محمد ہے۔ اسلامی تاریخی شہر بخارا سے تین میل کے فاصلہ پر قصر ہندواں نامی قصبہ میں محرم الحرام ۷۲۸ ہجری میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے آپکی پیشانی پر آثار ولایت و ہدایت نمایاں تھے اور یہ کیوں نہ ہوں جبکہ آپکی ولادت سے بھی پہلے وہاں سے گذرتے ہوئے قطب عالم حضرت محمد بابا سماسی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ مجھے یہاں سے ایک مرد خدا کی خوشبو آتی ہے۔ ایک اور مرتبہ فرمایا اب وہ خوشبو زیادہ ہوگئی ہے اور جب آپ پیدا ہوئے اور دعا کے لیے آپ کے پاس لائے گئے تو انہیں اپنی فرزندی میں قبول فرمایا اور توجہات سے نوازا۔ اس طرح حضرت شاہ نقشبند کی ابتدائی روحانی تربیت بابا سماسی نے کی اور بعد میں آپ کو حضرت سید امیر کلال کے سپرد فرمایا۔
گو آپ نے ظاہری طور پر طریقت کی تعلیم و تربیت حضرت سید امیر کلال سے حاصل کی لیکن روحانی طور پر آپکی تربیت حضرت قطب عالم عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ نے اویسی طریقہ پر فرمائی۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں میں اوائل احوال میں جذبات و بیقراری کے عالم میں راتوں کو اطراف بخارا میں پھرا کرتا تھا اور ہر مزار پر جاتا تھا۔ ایک رات میں تین مزارات پر گیا۔ آخر میں جس بزرگ کے مزار پر گیا وہاں حالت بے خودی میں میں نے دیکھا کہ قبلہ کی جانب سے دیوار شق ہوگئی اور ایک بڑا تخت ظاہر ہوا جس پر ایک بزرگ تشریف فرما تھے۔ الغرض ایک شخص نے مجھے بتایا کہ یہ حضرت عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ میں نے حضرت خواجہ کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دیا اور وہ ارشادات فرمائے جو سلوک کے ابتداء اور درمیان و انتہا سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی مکمل سلوک کی تعلیم دیدی۔ اس موقعہ پر تاکیدی طور پر آپ نے مجھے ارشاد فرمایا استقامت سے شریعت کے شاہراہ پر چلنا۔ کبھی اس سے قدم باہر نہ نکالنا۔ عزیمت اور سنت پر عمل کرنا اور بدعت سے دور رہنا۔ اسی لیے مدت العمر آپ شریعت و سنت پر کاربند رہے اور اتباع شریعت اور رسم و بدعت سے نفرت طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی امتیازی علامات ہیں۔ نقشبندی سلسلہ آپ کی طرف منسوب ہے۔ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی تین اصطلاحات وقوف زمانی، وقوف عددی اور وقوف قلبی شاہ نقشبند قدس سرہ نے مقرر فرمائی ہیں اور آپ اویسی بھی ہیں کہ آپ کو روحانی نسب حضرت خواجہ عبدالخالق سے حاصل ہوئی۔
آپ کا وصال بروز پیر ۳ ربیع الاول ۷۹۱ ہجری میں ۷۳ برس کی عمر میں قصر عارفاں میں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مزار شریف قصر عارفاں نزد بخارا میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ مشہور یہ ہے کہ حضرت نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جنازہ کے سامنے یہ شعر پڑھا جائے
مفلسانیم آمدہ در کوئے تو
شیئا للہ از جمال روئے تو
ترجمہ: میرے مولیٰ میں ایک مفلس کی حیثیت سے آپکی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں، خدارا اپنا جلوہ جہاں آرا مجھے دکھادے۔

شیخ علاؤالدین عطار

رحمۃ اللہ علیہ


حضرت علاؤالدین قدس سرہ خواجۂ خواجگان حضرت بہاؤالدین نقشبند بخاری قدس سرہ کے خلیفہ اول، داماد اور جانشین ہیں۔ لڑکپن ہی سے آپ پر حضرت شاہ نقشبند کی خصوصی نظر عنایت رہی۔ درجہ کمال پر فائز ہونے کے بعد اپنے سامنے ہی طالبان طریقت کی تعلیم آپ سے متعلق کردی تھی۔ حضرت شیخ قدس سرہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتباع سنت اور عمل بہ حزیمت کا خصوصی اہتمام رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نامور علماء کرام نے بھی آپ کی طرف رجوع کیا۔ علوم عقلیہ و نقلیہ کے ماہر اور مختلف علوم و فنون میں مثالی درسی کتب کے مصنف حضرت علامہ شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے متعلق فرماتے ہیں۔ ”و اللہ ما عرفت الحق سبحانہ وتعالیٰ کما ینبغی مالم اصل الیٰ خدمۃ العطار البخاری“ کہ خدا کی قسم میں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو جیسا چاہیے نہیں پہچانا تھا جب تک کہ میں حضرت علاؤالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا۔
بروز بدھ ۲۰ رجب المرجب ۸۰۴ ہجری کو اس فانی جہاں سے کوچ فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مزار مبارک موضع جفانیاں ماوراء النہر کے علاقہ میں ہے۔


مکتوب ششم قسط ۵

 

 

متن


ازینجا ہم صریحاً مفہوم مے شود کہ شہود و معرفت و حیرت در نفس است و بس از بیرون ھیچکدامِ اینہا نیست تازمانیکہ یکے ازین ثلٰثہ در بیرون است اگرچہ در خود ھم دارد از فنا بہرہ ندارد فکیف البقا نہایتِ مرتبہ در فنا و بقا این است و این فنا مطلق است و مطلق فنا عام است و بقا باندازہِ فنا است لہٰذا بعضے اہل اللہ بعد از تحقق بفنا و بقا در بیرون نیز شہود دارند امّا نسبتِ این عزیزان فوق ھمہ نسبتہا است۔

                                  نہ ھرکہ آئینہ دارد سکندری داند  ::   نہ ھرکہ سر بتراشد قلندری داند

ھرگاہ از اکابرِ این سلسلہ بعد از قرون بسیار یکے یادوئ را باین نسبت مشرف سازند از سلاسلِ دیگر چہ گوید این نسبت حضرتِ خواجہ عبدالخالق غجدوانی است قدس سرہ و متمم و مکمل آن حضرتِ خواجہ خواجہا است اعنی حضرت خواجہ بہاء الدین المعروف بہ نقشبند قدس سرہ سرھم و از خلفاء ایشان حضرتِ خواجہ علاو الدین باین دولت مشرف شدہ بودند

                                                      این کار دولت است اکنون تا کرا رسد

ترجمہ


یہاں سے بھی صریحاً معلوم ہوتا ہے کہ شہود اور معرفت اور حیرت نفس میں ہے اور خارج میں ان میں سے ایک بھی نہیں ہے اس وقت تک کہ ان تینوں میں سے ایک بھی خارج میں ہوگو اپنے آپ میں بھی اسے رکھتا ہو فنا کا حصہ نہیں رکھتا۔ پھر بقا کی کیفیت مرتبہِ فنا کی نہایت میں ہے اور بقا یہ ہے اور یہ فناءِ مطلق ہے اور مطلق فنا عام ہے اور بقا بقدر فنا ہے لہٰذا بعض عارفین نے فنا و بقا کی خارج میں تحقیق کے بعد مزید شہود حاصل کرلیا ہے لیکن حضرات خواجگان نقشبند رحمۃ اللہ تعالیٰ اجمعین کی نسبت تمام نسبتوں سے فائق ہے۔

                   ہر کوئی آئینہ رکھنے والا سکندری نہیں جانتا :: ہر سر ترشوانے والا قلندری نہیں جانتا

ہر زمانے سے اس سلسلہ نقشبندیہ کے اکابر دیگر سلاسل سے ایک یا دو کو اس نسبت سے سرفراز فرماتے ہیں اس نسبت کے متعلق فقیر کیا کہے؟ اگر اسکی ابتداء حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی ہیں قدس سرہ  تو اسکی انتہیٰ خواجگان کے خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ ہیں اور انکے خلفاء میں سے حضرت خواجہ علاو الدین اس دولت سے سرفراز ہوئے تھے۔

                                             یہ دولت کا کام ہے اب کہاں تک پنچتا ہے

شرح 


امام ربّانی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ فنا کے اعتبار سے بقا نصیب ہوتی ہے اور فنائے کامل بقائے کامل کی نشانی ہے نیز شہود ، معرفت اور حیرت تینوں کا خارج میں ہونا یا ان میں سے ایک یا دو کا بیرون نفس ہونا فنائے کاملہ میں رکاوٹ ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ فناءِ مطلق اور مطلق فنا میں فرق ہے اول الذکر خاص اور دوسری عام ہے۔ اسکے بعد فرماتے ہیں کہ حضرات نقشبندیہ کی نسبت تمام سلاسل کی نسبت سے بڑھ کر ہے۔

حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رح


   آج سے سینکڑوں برس پہلے بخارا کے ایک بڑے شہر غجدوان کی قابل احترام شخصیت امام وقت حضرت عبدالجلیل یا عبدالجمیل کے گھرانے کو ایک ایسے ہی مرد کامل نے بشارت دی کہ تمہارے گھر ایک چراغ روشن ہونے والا ہے جو ایک عالم کو پرنور بنائے گا۔ اس کا شمار خدا کے محبوبین اور مقربین میں ہوگا، میں اسے اپنی فرزندی میں قبول کرتا ہوں۔ اس کا نام عبدالخالق رکھنا۔
    یہ بشارت دینے والے حضرت خضر علیہ السلام تھے جو اللہ کے ایک کامل بندے کی دنیا میں آمد آمد کی خوشخبری آپ کے والدین کو دے رہے تھے اس لئے کہ بچے کی پرورش بھی اسی نہج پر ہو۔
    حضرت خواجہ عبدالجلیل امام رحمة اللہ علیہ جو کہ حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ کی اولاد سے ہیں، آپ اکابر اولیاء میں سے تھے، اپنے وقت کے مقتداء اور عالم ظاہر و باطن تھے۔ روم سے دیار ماوراء النہر سے بخارا میں آئے اور وہاں کے مشہور شہر غجدوان میں سکونیت اختیار فرمائی۔
    حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ جو کہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، انہوں نے جب بشارت دینے والے کو دیکھا تو نہایت شرماکر فرمایا حضرت آنے والے مہمان کی بشارت میرے بجائے ان کے والد ماجد کو دی جاتی تو بہتر تھا۔ انہوں نے فرمایا آپ کو ہم اس لئے بشارت دے رہے ہیں کہ حضرت خواجہ عبدالجلیل امام اپنی اس خوشی کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکیں گے۔ یہ سننا تھا کہ حضرت کی والدہ کو اپنی دنیا اندھیر ہوتی نظر آئی، لیکن ساتھ ہی آنے والے مہمان کی خدا کی بارگاہ میں مقبولیت دیکھ کر حوصلہ ہوا۔
    اس بشارت کے ٹھیک تین ماہ بعد حضرت خواجہ عبدالجلیل واصل بحق ہوئے اور اپنے چہیتوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ لیکن وقت خود ایک بہت بڑا حکیم ہے، اس نے حضرت کی جدائی کے زخموں کو مندمل کرنا شروع کیا اور ٹھیک چھ ماہ بعد حضرت خواجہ عبدالجلیل رحمة اللہ علیہ امام کے گھر ایک حسین و جمیل بچہ تولد ہوا، جس کا نام مبارک مردِ کامل کی بشارت کی وجہ سے عبدالخالق رکھا گیا۔ وقت کی گھڑیاں گذرتی رہیں اور بچہ اپنی ماں کے زیر سایہ پرورش پانے لگا حتیٰ کہ آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو مدرسہ میں قرآن پاک پڑھنے کے لئے مشہور زمانہ بزرگ اور مفسر قرآن استاذ صدر الدین کے حوالے فرمایا۔ ایک روز دورانِ تدریس قرآن پاک کی یہ آیت آئی
اُدعُوا رَبَّکُم تَضَرُّعًا وَّ خُفیَةً اِنَّـہٗ لَا یُحِبُّ المُعتَدِینَ۝ (الاعراف ع۱)
”تم اپنے رب کو گریہ و زاری اور پوشیدگی کے ساتھ پکارو، بے شک وہ حد سے زیادہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا“۔
تو ذہین شاگرد نے فورًا استاذ محترم سے سوال کیا کہ استاذ محترم! میں اس اخفاء اور پوشیدگی سے متعلق جاننا چاہتا ہوں کہ جس کا یہاں خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے، مزید براں یہ کہ اس کا طریقہ کیا ہے۔ استاد صاحب اپنے ذہین شاگرد کا اچانک یہ سوال سن کر ششدر رہ گئے اور پھر کچھ دیر سوچ کر فرمایا کہ ذکر خفی اس لئے بہتر ہے کہ اس سے عبادت اور دکھاوے میں فرق واضح ہوجاتا ہے۔ عبادت کو اگر علی الاعلان کیا جائے تو غرور و ریاء کا خدشہ ہے، جبکہ پوشیدہ عبادت میں اس کا احتمال نہیں۔ استاد محترم کے اس مختصر جواب سے ہونہار شاگرد کی تسلی نہ ہوئی اور مزید تفصیل جاننے کے لئے تقاضا کیا۔ استاد نے جان چھڑانے کی خاطر کہا کہ عبدالخالق تمہاری عمر کا تقاضا نہیں ہے کہ تمہیں تفصیل سے جواب دیا جائے کیونکہ تم سمجھ نہ پاؤ گے۔ ذہین شاگرد نے کہا کہ جناب آپ میری عمر کو نہ دیکھیں میری طلب اور شوق کی طرف نظر کریں۔ آپ بتائیں میں یقینًا سمجھ جاؤں گا۔ استاد محترم نے کہا کہ عبدالخالق وہ کیا خدشے ہیں جو کہ تمہارے سوال سے پیدا ہوتے ہیں، ان کا جواب دوں۔ عبدالخالق نے فرمایا کہ اگر ذاکر بلند آواز سے ذکر کرے یا مقام ذکر میں اعضاء سے حرکت تو ذاکر کے ذکر سے دوسرا شخص واقف ہوجاتا ہے اور ذکر خفیہ نہیں رہتا، اور اگر دل سے ذکر کرے تو اس کا اثر شیطان پر پڑتا ہے کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ
اَلشَیطَانُ یَجرِی فِی عُرُوقِ ابنِ آدَمَ مَجدَی الدَّمِ
کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے، وہ ذکر سے واقف ہوجاتا ہے۔ استاد محترم نے جواب سنا تو نہایت درجہ حیران ہوئے اور فرمایا کہ عبدالخالق تمہارے اس سوال کا جواب علم لدنی سے ہے جو میرے بس کی بات نہیں، جتنا مجھے خدا نے دیا ہے تمہیں پڑھادوں گا، لیکن تمہارے علم کی تکمیل کوئی مرد کامل ہی کریگا۔ ہونہار اور ذہین شاگرد نے دن رات ایک کرکے ظاہری تعلیم سے فراغت حاصل کرلی۔ لیکن دل کی پیاس تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ آپ مردِ کامل کی تلاش میں پھرتے رہے اور ایک وقت اس میں گذر گیا۔ آخر بہت دنوں بعد اپنی والدہ ماجدہ سے نہایت مایوس کن لہجے میں عرض کیا کہ امی حضور جن کی مجھے تلاش ہے وہ کہیں مل نہیں پارہے۔ والدہ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا جب تم پیدا نہیں ہوئے تھے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری بشارت دی گئی اور تمہارا نام بھی بتادیا گیا تھا، جب منزل کا تعین پیدائش سے قبل ہی کردیا گیا ہے تو یقینًا وہ مسبب الاسباب تمہیں تشنہ نہیں چھوڑے گا اور تمہاری روح کی تکمیل کے لئے ضرور سامان مہیّا فرمائے گا۔ والدہ کی طرف سے تسلی آمیز کلمات سنکر حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ کو سکون ملا اور پھر راہِ گم گشتہ کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔ حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ جہاں مردِ کامل کی تلاش میں تھے وہیں پر آپ خود ہی ذکر قلبی یا ذکر خفی کرتے رہتے تھے۔ ہر وقت یاد محبوب میں خود کو شاغل رکھتے تھے۔ ایسے ہی ایک روز آپ بعد نماز عشاء محویت کے عالم میں بیٹھے تھے کہ آپ کو کسی نے آواز دی۔ آپ چونکے، اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر اپنا وہمہ خیال کرکے دوبارہ ذکر میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر آواز آئی تو آپ نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک نہایت حسین جمیل صورت بزرگ تشریف فرما ہیں۔ حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ بزرگ سے اٹھ کر ملے۔ بزرگ گویا ہوئے کہ عبدالخالق تمہیں مردِ کامل کی تلاش تھی اور رب تعالیٰ نے مجھے خود ہی تمہارے پاس بھیجدیا ہے۔ حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نے عرض کیا کہ جناب میں تو آپ کو پہچانا ہی نہیں، بزرگ نے نہایت محبت آمیز لہجے میں فرمایا کہ بیٹا میں وہی ہوں جس نے تمہاری پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی اور میرا کام لوگوں کو راستہ دکھانا ہے۔ حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نہایت درجہ خوش ہوئے اور بزرگ کی خدمت میں عرض کیا جناب ابھی آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں گے۔ بزرگ نے چند شرائط پیش کیں۔1، میں تمہارے ساتھ کچھ کھاؤں پیئوں گا نہیں 2، میں تمہارے ساتھ اقامت اختیار نہیں کروں گا 3، میرا تعلق صرف اور صرف تمہاری ذات تک محدود رہے گا، میں تمہارے کسی عزیز دوست رشتہ دار سے نہیں ملوں گا اور 4، چوتھی شرط یہ کہ تم میری کسی بھی بات پر مجھ سے اس کی وجہ نہیں پوچھو گے اور میرا تعارف نہیں چاہو گے۔ حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نے وعدہ فرمالیا کہ انہیں یہ تمام شرائط منظور ہیں اور میں ان پر کماحقہ عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان شرائط کے ساتھ ہی اس مردِ کامل نے حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ سے فرمایا اب میں تمہیں اپنی فرزندی میں لیتا ہوں اور تمہیں ایک سبق بتاتا ہوں، اس پر مداومت کرو تاکہ تم پر اسرار و رموز منکشف ہوں۔ پھر اس مردِ کامل نے حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ کو وقوف عددی کی تعلیم دی اور فرمایا کہ دل کی گہرائیوں سے ”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہِ“ کہو۔ حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نے ایسا ہی کیا اور اس ورد میں مشغول ہوگئے اور بہت جلد انہیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ علم و اسرار کے بوجھ سے ان کا وزن بڑھتا جارہا ہے۔ حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ کی عمر 22 برس کی ہوچکی تھی اور حضرت خضر علیہ السلام کی تربیت میں ایک عرصہ ہوچلا تھا کہ یکایک غلغلہ بلند ہوا کہ بخارا میں مشہور زمانہ بزرگ خواجۂ خواجگان خواجہ ابویوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ سے فرمایا کہ اب میرا کام ختم ہوا، جن کا ہمیں انتظار تھا وہ تشریف لائے ہیں، اب وہ آپ کی تربیت کریں گے۔ حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نہایت متعجب ہوئے اور پوچھا جناب کیا یہ اہل اللہ میں سے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ بے شک یہ اہل اللہ کے سرکردہ ہیں اور وہی آپ کی روحانی تربیت فرمائیں گے۔ حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ اپنے پیر سبق کے ساتھ حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نہایت متعجب ہوئے کہ حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ پہلے ہی سے منتظر ہیں اور بڑھ کر حضرت خضر علیہ السلام سے مصافحہ فرمایا۔
    حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ ”جناب اس لڑکے کی اب آپ تربیت فرمائیں گے، اسے اپنی فرزندی میں قبول فرمائیں۔“ حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جناب میں بخارا اِن کے لئے ہی آیا ہوں۔ اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بیٹا اب یہ تمہارے مرشد ہیں، تمہیں ان کے پاس رہ کر روحانی ترقی کی منازل طے کرنا ہوں گی۔ اس پر حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جناب میں تو اب تک آپ کو ہی اپنا مرشد سمجھتا رہا ہوں۔ بزرگ نے فرمایا کہ اب ابو یوسف ہمدانی تمہارے مرشد ہیں، یہ فرماکر وہ تشریف لے گئے۔ آخر حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ اپنے مرشد مربی سے عرض گذار ہوئے کہ حضور آپ میرے مرشد ہیں، کیا آپ میرا ایک مسئلہ حل فرمائیں گے۔ حضرت ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ نے وعدہ فرمالیا کہ جو پوچھو ہم انشاء اللہ بتائیں گے۔ اس پر حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نے عرض کیا جناب یہ بزرگ جو مجھے آپ کی خدمت میں لے کر آئے تھے یہ کون ہیں؟ حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ کیا تم اپنا سوال واپس نہیں لے سکتے۔ آپ نے عرض کیا کہ جناب سوال واپس لینے کے لئے نہیں کیا گیا۔ اس پر حضرت ابو یوسف علی ہمدانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ میرے مرشد حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔ حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نے یہ سنا تو حیرت کے ساتھ فرمایا کہ  یہ حضرت خضر ہیں، افسوس کہ اتنا عرصہ حضرت کے ساتھ رہا لیکن پہچان نہ سکا۔ آپ نے فرمایا کہ اب افسوس کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اب تم میری باتوں پر عمل کرو، خدا نے چاہا تو دور دور تک تمہارا کوئی جواب نہ ہوگا۔ اس کے بعد حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ اپنے مرشد حقانی کی خدمت میں رہنے لگے۔
    یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ کے پیر سبق ہیں تو حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ آپ کے پیرِ صحبت و پیر خرقۂ خلافت ہیں۔ حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ کا طریقہ مبارکہ ذکر بالجہر تھا یعنی آپ بلند آواز سے ذکر اختیار فرماتے تھے اور اسی کی ترویج فرماتے تھے۔ جبکہ حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ ذکر خفی کو اختیار کئے ہوئے تھے اور حضرت خضر علیہ السلام نے بھی ذکر قلبی کا ہی طریقہ آپ کو ودیعت فرمایا تھا۔ اس لئے آپ نے حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ کے پاس اسی طریقہ یعنی ذکر خفی کو جاری رکھا اور انہوں نے آپ کو منع نہیں فرمایا بلکہ حضرت عبدالخالق رحمة اللہ علیہ کے پوچھنے پر یہی ارشاد فرمایا کہ تم اسی طریقہ پر کاربند رہو جس پر پہلے دن سے عمل پیرا ہو۔ ایک عرصہ کے بعد حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ خراسان تشریف لے گئے تو حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ کو یہی فرمایا کہ آپ یہیں رہیں گے اور طریقۂ عالیہ کی اشاعت فرمائیں گے۔
    حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ حضرت خواجہ ابو یوسف ہمدانی رحمة اللہ علیہ کے تشریف لے جانے کے بعد وہیں بخارا میں ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوگئے۔ آپ اپنی روش و حالات کو اغیار کی نظروں سے پوشیدہ رکھتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور وہی جگہ خانقاہ اور آستانہ بن گیا۔
    آپ طریقۂ عالیہ کی اشاعت پر کمربستہ ہوئے اور مجلس وعظ و نصیحت قائم فرمائی۔ آپ جب لوگوں کو تلقین فرماتے تو جذبہ و وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی اور ’ہو حق‘ کا غلغلہ بلند ہوجاتا۔ آپ پر راز الٰہی منکشف ہونے لگے تھے، آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی اور ایک دنیا تھی کہ آپ کی طرف امنڈتی چلی آتی تھی۔ آپ نے سالکانِ طریقت فقراء کرام کی اصلاح نفس اور قربِ خداوندی کے حصول کے لئے لوگوں کو چند اصطلاحات بتائیں اور نصیحت فرمائی کہ انہیں ہمیشہ یاد رکھو اور انہیں سمجھو اور خلوص دل سے ان پر کاربند ہوجاؤ تاکہ دین و دنیا کی سرخروئی حاصل ہو۔ لوگوں نے اصطلاحات سے متعلق جب آپ سے استفسار کیا تو آپ نے جواب دیا کہ
۱۔ ہوش در دم، ۲۔ نظر بر قدم، ۳۔ سفر در وطن، ۴۔ خلوت در انجمن، ۵۔ یاد کرد، ۶۔ باز گشت، ۷۔ نگاہ داشت، ۸۔ یادداشت،  ۹۔ وقوف عددی، ۱۰۔ وقوف زمانی، ۱۱۔ وقوف قلبی۔
سننے والوں کے ہوش جاتے رہے، زبانیں گنگ ہوگئیں اور شعور نے جواب دے دیا۔ کسی نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا حضرت ہم ناقص العقل ہیں، ذرا ان کی وضاحت بھی فرمادیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم وضاحت چاہتے ہو تو سنو کہ
۱۔ ’ہوش در دم‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان کا ہر سانس یاد اللہ کیلئے وقف ہو، کسی بھی سانس کو ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ جس سانس میں خدا کی یاد نہ ہوئی وہ لمحہ غفلت میں گذرا۔ سانس کے اندر جاتے اور باہر آتے دونوں میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ غفلت کا لمحہ نہ ملنے پائے۔
۲۔ ’نظر بر قدم‘ کا مطلب یہ ہے کہ سالک راہ چلنے میں نگاہ اپنے پاؤں کی پشت پر رکھے تاکہ بیجا نظر اِدھر اُدھر نہ پڑے اور دل محسوسات متفرقہ سے پراگندہ نہ ہو۔ کیونکہ یہ بات مانع حصول مقصود ہے۔ یا اس بات کا مطلب یہ ہے کہ سالک کا قدم باطن اس کی نظر باطن سے پیچھے نہ رہے۔
۳۔ ’سفر در وطن‘ کا اصل مطلب یہ ہے کہ سفر در نفس۔ انسان کو دنیاوی سفر کی بجائے اپنے اندر کا سفر اختیار کرنا چاہیئے۔ دنیاوی سفر اسی قدر اختیار کرے کہ پیر کامل تک رسائی حاصل ہوجائے، دوسری حرکت جائز نہیں۔ اگر اپنے پیر کی قربت اور محبت میسر ہوجائے تو انسان کو سفر سے گریز کرنا چاہیئے۔
۴۔ ’خلوت در انجمن‘ سے مراد یہ ہے کہ انجمن جو تفرقہ کی جگہ ہے اس سے تعلق رکھنے کے باوجود ازراہ باطن حق تعالیٰ کے ساتھ خلوت رکھے اور غفلت کو دل میں راہ نہ دے۔ یعنی بازار سے گذرتے ہوئے ذکر میں اس قدر مشغول ہو کہ بازار کے شور و غل کو نہ سن سکے۔ شروع میں یہ معاملہ بتکلف ہوتا ہے اور آخر میں بے تکلف۔
۵۔ ’یاد کرد‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ذکر میں مشغول رہے، ذکر خواہ زبانی ہو یا قلبی۔
۶۔ ’باز گشت‘ سے یہ مراد ہے کہ جب ذاکر کلمۂ توحید کا دل سے ذکر کرے تو ہر بار حکم توحید کے بعد اپنے دل کی زبان سے یہ کہے کہ خدایا میرا مقصود تو اور تیری رضا ہی ہے۔
۷۔ ’نگاہ داشت‘ کا مطلب یہ ہے کہ قلب کو خطرات و حدیثِ نفس سے نگاہ رکھے، یعنی کلمہ طیبہ کی تکرار کرتے وقت دل کو تمام وسوسوں سے دور رکھے۔ اور بہتر یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کا ورد حبس دم کے ساتھ ہو۔ کسی نے سوال کیا حضرت یاد داشت کا کیا مطلب ہے۔ آپ نے فرمایا
۸۔ ’یاد داشت‘ سے مراد یہ ہے کہ دوام آگہی بحق سبحانہ (یعنی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اللہ رب العزت کا ذکر قلب و روح میں سرایت کرجائے) اور یہ دوام آگہی اس حد تک غالب ہو کہ سالک کو اپنے وجود کا بھی شعور نہ رہے (اور جب اس بے شعوری کا بھی شعور نہ رہے تو یہ فنائے فناء کہلاتا ہے اور یہی یاد داشت ہے)۔ ایک خادم نے ادب سے اٹھکر عرض کیا حضرت نگہداشت اور یادداشت میں کیا فرق ہے۔ فرمایا نگہداشت میں طالب اپنی کوشش سے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور یادداشت میں بلا کوشش خود بخود قلب خدا کی طرف متوجہ و مشغول ہوجاتا ہے۔
۹۔ ’وقوف عددی‘۔ اس سے مراد ذکر نفی اثبات میں عدد ذکر سے واقف رہنا ہے، یعنی ذاکر اس ذکر میں سانس کو طاق عدد پر چھوڑے نہ کہ جفت پر، جیسے ۳، ۵، ۷، ۱۱، ۱۳۔ کیونکہ ارشاد ہے ”اللہ وتر یحب الوتر“ خدا ایک ہے اور اکیلے کو دوست رکھتا ہے۔
۱۰۔ ’وقوف زمانی‘ سے مراد ہے کہ واقف نفس رہے، پاس انفاس کو ملحوظ رکھے یعنی محاسبہ رکھے کہ سانس حضور میں گذرتا ہے یا غفلت میں۔ بصورت اطاعت شکر بجا لائے اور بصورت غفلت و معصیت میں عذر خواہی کرے اور استغفار کرے۔ یہ محاسبہ کہلاتا ہے۔
۱۱۔ ’وقوف قلبی‘ سے مراد یہ ہے کہ سالک ہر آن ہر لحظہ اپنے قلب کی طرف متوجہ رہے اور قلب خدا کی طرف متوجہ رہے تاکہ سب طرف کی توجہ ٹوٹ کر معبود حقیقی کی طرف توجہ رہ جائے اور خطرات اور وسوسے قلب میں داخل نہ ہوں، خصوصًا ذکر کے وقت اس کا پورا پورا خیال رکھے۔ وقوف قلبی حضرت خواجہ رحمة اللہ علیہ کے نزدیک بہت ضروری اور رکن عظیم ہے اور دارومدار طریقہ نقشبندیہ کا سی پر ہے۔
    آپ کی اس تشریح و تقریر کا لوگوں پر زبردست اثر ہوا اور لوگوں کو آپ کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوا۔ جو لوگ آپ کو ایک عام انسان کی نظر سے دیکھتے تھے ان کے دلوں میں آپ کی ہیبت اور رعب بیٹھ گیا اور مریدین کے دلوں میں آپ کی عزت و تکریم میں زیادہ اضافہ ہوا۔
    آپ پر خوف خدا کا ہر وقت غلبہ رہتا تھا اور عمومًا گریہ و زاری کی حالت میں رہتے۔ ایک روز اپ اپنے عبادت خانے میں گریہ وزاری میں مشغول تھے۔ آپ کے دوستوں نے عرض کیا کہ حضور آپ پر خدا تعالیٰ کی بہت مہربانیاں ہیں اور آپ خود بہت خوبیوں کے مالک ہیں، پھر آپ میں اتنا ڈر اور خوف کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ جب میں اللہ تعالیٰ کی بے نیازی پر غور کرتا ہوں تو بدن سے جان نکلنے کے قریب ہوجاتی ہے کہ شاید مجھ سے کوئی ایسا کام ہوگیا ہو جس کا مجھے علم نہ ہو اور وہ بارگاہ الٰہی میں ناپسندیدہ ہو۔ اس خوف کا ہی غلبہ تھا کہ آپ کہاں بیٹھتے تو ایسے رہتے کہ گویا آپ کو قتل کرنے کے لئے بٹھایا گیا ہے۔
    ایک دفعہ آپ کی مجلس میں ایک درویش بہت زیادہ باتیں کررہا تھا۔ دوران گفتگو درویش نے کہا کہ اگر خدا مجھے یہ اختیار دے کہ میں اپنے لئے جنت کو پسند کروں یا دوزخ کو، تو میں دوزخ کا انتخاب کروں گا۔ لوگوں نے حیرانی سے پوچھا کہ کیوں، تو درویش نے جواب دیا کہ میں نے آج تک اپنی خواہش کی پیروی نہیں کی، اگر مجھے جنت یا دوزخ میں جانے کا اختیار مل جاتا ہے تو لازمی امر ہے کہ میری خواہش ہوگی کہ میں جنت میں جاؤں۔ لیکن میں اس کے برعکس کروں گا اور دوزخ میں جانا پسند کروں گا۔ درویش کی یہ بات سن کر لوگوں نے اس کی بہت تعریف کی اور اس کے لئے داد و تحسین کا آوازہ بلند کیا۔ درویش کی یہ ساری گفتگو حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ بھی سن رہے تھے۔ آپ بہت زیادہ ناراض ہوئے اور آپ نے فرمایا اے شخص خدا تجھے معاف فرمائے، تو اپنے منہ سے کیا گمراہی بک رہا ہے۔ پہلے تو یہ بتا کہ تیری حیثیت کیا ہے۔ درویش سوال نہ سمجھا تو آپ نے دوبارہ فرمایا کہ تیری اور خدا کی حیثیت میں کیا فرق ہے؟ درویش نے جواب دیا کہ خدا ہر چیز کا خالق و مالک اور میں اس کا ناچیز بندہ ہوں۔ آپ نے نہایت جلال کے ساتھ فرمایا جب تجھ میں اور تیرے رب میں برابری والی کوئی بات ہی نہیں تو پھر تجھ میں اتنی قدرت و اختیار کہاں سے آگیا کہ اپنی مرضی سے جنت یا دوزخ کا انتخاب کرتا پھرے، بندے اور خادم میں تو اختیار کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ بلکہ تجھے تو اس طرح کہنا چاہیئے تھا کہ جہاں میرا مالک چاہے مجھے بھیجدے اس کے حکم اور مرضی کی سرتابی کی ہم میں جرات کہاں۔ درویش آپ کی علمیت اور مرتبہ سے مبہوت ہوکر رہ گیا اور کچھ دیر مجلس پر سکوت طاری رہا۔ پھر درویش دوبارہ بولا حضرت میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا پوچھ جو کچھ پوچھنا چاہے، خدا نے چاہا تو میں تیرے سب سوالوں کا معقول جواب دوں گا۔ درویش نے کہا کہ حضرت کیا سالکانِ طریقت پر بھی شیطان غالب آسکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ جو سالک مقام فناء نفس کے درجے پر نہ پہنچا ہو اس پر شیطان غالب آسکتا ہے اور عموم،ا شیطان غصہ کی حالت میں انسان پر غالب آتا ہے لیکن وہ لوگ جو فناء نفس کے مقام پر پہنچ جاتے ہے ان کو غصہ نہیں آتا بلکہ انہیں غیرت آتی ہے اور جہاں غیرت ہوتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے، اور یہ خصوصیات صرف ان لوگوں میں پائی جائیں گی جو کتاب و سنت کی روشنی میں اپنی منزل کو تلاش کرتے ہیں۔
    مجلس ذکر جمی تھی اور معرفت و قربت کے جام لنڈھائے جارہے تھے اور درس تصوف کا سلسلہ جاری تھا کہ دوران محفل ایک خادم نے سوال کیا کہ حضرت فراغت سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ فراغت سے مراد دل کی فراغت ہے۔ خادم نے وضاحت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ محبت دنیا دل میں راہ نہ پائے، نہ یہ کہ دنیا کی مشغولی سے آزاد رہے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم سے خدائے پاک نے فرمایا کہ
فَاِذَا فَرَغتَ فَانصَب۝

”اپنے دل کو خالی کرکے ہماری یاد میں مشغول ہوں“۔ چونکہ اہل اللہ کی خرید و فروخت ذکر اللہ تعالیٰ میں رکاوٹ نہیں بنتی اس لئے خدا تعالیٰ نے اس جماعت کی تعریف کی ہے اور مردانگی کو انہی کے لئے ثابت فرمایا ہے۔
رِجَال لَا تُلھِیھِم تِجَارَة وَ لَا بَیعُ عَن ذِکرِ اللہِ
”ایسے مرد ہیں کہ نہیں غافل کرسکتی اُن کو ذکر الٰہی سے تجارت اور خرید و فروخت“۔ آپ نے خادم سے فرمایا کہ اگر تم ان لوگوں میں سے ہو تو تمہیں مبارک ہو۔
    عاشورہ کے موقع پر لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ فروکش تھے اور لوگ آپ سے سوالات کررہے تھے کہ اسی دوران ایک نہایت خوبصورت نوجوان محفل میں آیا۔ اس کے جسم پر نہایت خوبصورت خرقہ اور کاندھے پر سجّادہ یعنی جائے نماز تھی اور وہ خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ لوگوں کے سوالات کچھ کم ہوئے تو وہ نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے عرض کیا کہ میرا ایک سوال ہے۔ آپ نے اس نوجوان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ میں جانتا ہوں تو کیا سوال کرے گا، اگر تو سوال نہ کرے تو بہتر ہے۔ نوجوان نے عرض کیا کہ حضرت میں اپنے سوال کا جواب لیئے بغیر یہاں سے نہ ٹلوں گا، آپ کی صحبت ہی تو وہ جگہ ہے جہاں سے لوگ علم کی تشنگی دور کرتے ہیں، پھر بھلا میں اپنی پیاس بجھائے بغیر کس طرح چلا جاؤں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر واقعی تو علم کی پیاس بجھانے آیا ہے تو ٹھیک ہے مگر خدا سے دعا کر کہ وہ تجھے شرمندگی سے بچائے۔ نوجوان نے عرض کیا کہ حضرت رسول مقبول صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مؤمن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔
(اِتَّقُوا فَرَاسَةِ المُؤمِنِ فَاِنَّہٗ یَنظُرُ بِنُورِ اللہِ)
میں نے بہت کوشش کی کہ اس بات کی وضاحت سمجھ میں آجائے لیکن بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ مہربانی فرماکر اس کی وضاحت فرمادیں۔ آپ نے فرمایا اے نوجوان اس حدیث کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ تو مجھے اپنے زہد و تقویٰ کے لبادے سے دھوکہ نہ دے اور ردائے سجادگی اور خرقہ اتار اور زنار کو توڑ کر ایمان قبول کرلے۔ تمام حاضرین مجلس حیران ہوگئے اور پکارنے لگے کہ حضرت کیا یہ نوجوان مشرک ہے۔ نوجوان بہت حیران ہوا اور عرض کیا کہ حضرت آپ کیا فرمارہے ہیں، میرے پاس ہرگز زنّار نہیں ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے جو کچھ بھی کہا ہے مؤمن کی فراست سے کہا ہے اور خدا کا نور کبھی دھوکہ نہیں کھاسکتا۔ لیکن نوجوان انکار پر مصر رہا اور اپنے سوال کا تقاضا کرنے لگا۔ آپ نے جلال کے ساتھ اپنے خادم کو حکم دیا کہ اس کے پاس جاکر اس کا خرقہ اتار دے تاکہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ تم سب بھی دیکھ لو۔ خادم نے اس نوجوان کو پکڑلیا اور زبردستی اس کا خرقہ اتار دیا۔ حاضرین مجلس یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ حضرت صاحب نے جس زنار کا بغیر دیکھے اعلان فرمایا تھا وہ اس نوجوان کے بدن پر موجود تھا۔ لوگوں میں توبہ و استغفار کا غلغلہ بلند ہوا اور نوجوان شرمندگی محسوس کررہا تھا۔ آپ نے نوجوان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ یہ وقت ندامت اور شرمندگی کا نہیں بلکہ ہمت کا وقت ہے کہ جس زنار کی وجہ سے تجھے شرمندگی اٹھانی پڑی اسے کاٹ کر پھینک دے اور ایمان لے آ تاکہ تجھے بھی مؤمن کی فراست حاصل ہوجائے۔ نوجوان پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور اس نے آپ کے حکم سے زنار توڑ کر پیروں تلے مسل دیا اور حضرت کی خدمت میں عرض گذار ہوا کہ میں نے آپ کا حکم مانا اب آپ بھی مجھ پر نظر کرم فرمائیں۔ آپ نے اس نوجوان کو اپنے قریب کرکے اسے کلمہ پڑھواکر دائرہ اسلام میں داخل کرلیا۔ اس پر حاضرین مجلس نے صدائے تحسین بلند کی۔ آپ لوگوں کی طرف مخاطب ہوئے کہ ابھی تم نے کیا دیکھا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اللہ کے نور سے دیکھنے والے مؤمن کی فراست۔ آپ نے فرمایا آؤ ہم بھی اس نومسلم کی طرح اپنے زنار توڑ ڈالیں اور ازسرِ نو اسلام لائیں۔ جس طرح اس نے ظاہری زنار توڑا ہے ہم اپنے زنار باطنی یعنی خود پسندی، عجب، تکبر کو توڑ ڈالیں تاکہ اس نوجوان کی طرح ہم بھی بخشے جائیں۔
    آپ کے اس فرمان اور بیان میں دلِ دردمند کی تڑپ تھی کہ لوگوں پر جذب و وجد کی کیفیت سی طاری ہوگئی اور سب آپ کے قدموں میں گرگئے اور آہ و بکاء کا آوازہ بلند ہونے لگا اور سب لوگ پکار اٹھے حضرت ہمارے لئے دعا فرمائیے، ہم سب زنار خود پسندی سے توبہ کرتے ہیں۔ آپ نے سب کو تسلی دی اور آسمان کی طرف سر اٹھاکر فرمایا خدا تمہیں معاف فرمائے، اور آپ نے اختتامی دعا فرمائی اس طرح مجلس برخواست ہوئی۔
    آپ کی زندگی مبارک ایسے سینکڑوں واقعات سے پر ہے جن کو حیطۂ تحریر میں لانا کار داد ہے۔
    حضرت خواجہ عبدالخالق رحمة اللہ علیہ نے شادی بھی کی اور دنیاوی زندگی کو بھی بحسن و خوبی نبھایا اور اپنی اولاد کو بھی وہی درس دیا جو دوسروں کو دیتے رہے۔ آپ نے ایک مرتبہ اپنے فرزند معنوی اور چہیتے خلیفہ حضرت اولیاء کبیر رحمة اللہ علیہ کو ایک نصیحت نامہ تحریر فرمایا اور تاکید فرمائی کہ اسے اچھی طرح پڑھانا اور خوب سمجھ سمجھ کر پڑھنا، بار بار حتیٰ کہ یہ زبانی یاد ہوجائے اور پھر بغیر کسی خوف کے اس پر عمل کرنا شروع کردینا، کیونکہ وہی دنیا و آخرت کی نجات کا ذریعہ بنے گا۔ حضرت خواجہ اولیاء کبیر رحمة اللہ علیہ نے جب نصیحت نامہ کھولا تو اس میں وہ سب باتیں موجود تھیں جو ایک کامل مرد مؤمن کو درکار ہوسکتی ہیں۔ تبرکًا ان نصیحتوں کو یہاں اختصار سے رقم کیا جاتا ہے۔
    آپ تحریر فرماتے ہیں کہ اے فرزند تقویٰ کو اپنی خصلت بناؤ اور وطائف و عبادات پر مضبوطی سے جمے رہو اور اپنے حالات کا محاسبہ کرو، خدا اور اس کے رسول برحق علیہ الصلواة والسلام کے اور والدین کے حقوق ادا کرو، نماز باجماعت ادا کرنا، حدیث و تفسیر اور فقہ کی تعلیم ضرور حاصل کرنا، جاہل صوفیوں سے پرہیز کرنا کیونکہ وہ دین کے چور اور مسلمانوں کے راہزن ہیں، اپنے احوال ہمیشہ دوسروں سے چھپائے رکھنا، طالب ریاست نہ بننا، جو شخص ریاست کا طالب ہوا اس کو طریقت کا سالک نہیں کہا جاسکتا۔ بادشاہوں سے میل جول نہ رکھنا۔ اپنے نام کوئی قُبالہ نہ لکھوانا۔ خانقاہیں نہ بنوانا اور نہ ہی اپنے آپ کو شیخ کہلوانا۔ ہمیشہ روزہ دار رہنا، کیونکہ روزہ نفس کو توڑ دیتا ہے اور فقر میں پاکیزہ اور پرہیزگار رہنا۔ راہِ خدا میں تقویٰ، حلم اور فقر سے ثابت قدم رہنا، جان مال اور تن سے فقراء کی خدمت کرنا اور ان کا دل راضی رکھنا اور ان کی پیروی کرنا اور ان کے راستہ کو یاد رکھنا اور ان میں سے کسی کا انکار مت کرنا سوائے ان چیزوں کے جو مخالف شرع ہوں۔ اور متوکل علی اللہ رہنا کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا ہے اس کو تم خلقِ خدا پر خرچ کرنا۔ اپنے نفس کی حفاظت کرنا اور اسے عزت مت دینا۔ کم کھانا، کم پینا اور کم بولنا اور جب تک نیند کا غلبہ نہ ہوا کرے مت سونا اور جلد اٹھنا۔ مجالس سماع میں زیادہ مت بیٹھنا کیونکہ سماع کی زیادتی نفاق پیدا کرتی ہے، سماع کی کثرت دل کو مارتی ہے۔ مگر سماع کا انکار بھی نہ کرنا کیونکہ بہت سے بزرگوں نے اس کو سنا ہے۔ سماع صرف اس کے لئے جائز ہے جس کا دل زندہ اور بدن مردہ (یعنی اپنی خواہش کوئی نہ ہو) اور جس میں یہ دو حالتیں نہ ہوں اس کے لئے زمانہ روزہ میں مشغول ہونا بہتر ہے۔ مردوں اور عورتوں سے صحبت نہ رکھنا۔ دنیا کی طلب میں منہمک ہونے سے بچنا، کسی س اپنے آپ کو برتر نہ جانو اور نہ ہی کسی سے اپنے آپ کو کمتر خیال کرو۔ بہت زیادہ روؤ، کم ہنسو، قہقہوں سے یکسر پرہیز کرو۔ تمہارا بدن بیمار اور آنکھ روتی رہے، تمہارا عمل خالص، تمہاری دعا میں مجاہدہ ہو، مسجد تمہارا گھر اور کتابیں تمہارا مال ہوں۔ درویش تمہارے رفیق اور زہد و تقویٰ تمہاری آرائش ہو اور تمہارا مونس اللہ تعالیٰ ہو۔ جس شخص میں یہ پانچ باتیں ہوں اسی کے ساتھ دوستی رکھنا۔
۱۔ وہ فقیر کو تونگری یا امیری پر ترجیح دے۔
۲۔ جو دین کو ہمیشہ دنیا پر ترجیح دے۔
۳۔ جو علوم ظاہر و باطن کا عالم ہو۔
۴۔ راہِ خدا کی ذلت کو عزت پر فوقیت دے۔
۵۔ جو موت کے لئے ہر وقت تیار ہو۔
    اے فرزند ان نصیحتوں کو خوب یاد کرلو اور عمل کرو۔ جس طرح میں نے اپنے پیر و مرشد سے یاد کیں اور عمل کیا اور تم یاد کرو گے اور عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری دنیا و آخرت میں نگہبانی فرمائے گا۔ جن باتوں کا میں نے ذکر کیا ہے اگر یہ کسی سالک میں پیدا ہوجائیں تو اس کی بزرگی مسلم ہوجائے اور جو شخص اس کی پیروی کرے گا اپنے مقصود و مطلوب تک پہنچ جائے گا۔
    ایک مرتبہ حضرت خواجۂ خواجگان نہایت علیل ہوگئے، اصحاب و مریدین چاروں طرف جمع تھے۔ یکدم حضرت قطب الاقطاب نے چشم مبارک وا فرمائی اور ارشاد فرمایا لوگو تمہیں مبارک ہو کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے مجھے اپنی رضامندی کی خوشخبری دی ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے، اس لئے کہ لوگوں کو یقین تھا کہ اب یہ ماہتاب کامل روپوش ہوا چاہتا ہے۔ آپ نے لوگوں کی جذبانی حالت کو ملاحظہ فرمایا کہ لوگ بار بار دعا کی خواہش کررہے ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا دوستو تم کو مبارک ہو کہ حضرت حق تعالیٰ سبحانہ نے مجھے یہ خوشخبری دی ہے، اس طریقہ کو جو لوگ اختیار کریں گے اور آخر تک اس پر قائم رہیں گے میں ان سب کو بخش دوں گا اور سب پر اپنی رحمت نازل فرماؤں گا۔ پس بہت زیادہ کوشش کرو۔ یہ سننا تھا کہ لوگوں پر جوش و جذبہ اور گریہ کی کیفیت طاری ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد آواز آئی کہ
یٰاَیَّتُھَا النَّفسُ المُطمَئِنَّةُ ارجِعِی اِلَا رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرضِیَّة۝

”اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف آ کہ تو اس سے راض اور وہ تجھ سے راضی ہو“۔ یہ سن کر احباب و اصحاب نے دیکھا کہ آپ واصل باللہ ہوچکے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کی تاریخ وصال پر مختلف آراء ہیں۔ بعض نے ۶۱۶ھ، بعض نے ۶۱۷ھ اور بعض روایات میں ۶۱۵ھ ہے۔ تذکرة المشائخ نقشبندیہ اور صوفیائے نقشبند نے آپ کا وصال ۱۲ ربیع الاول ۶۷۵ھ لکھا ہے۔ اس طرح یہ آفتاب ولایت منبع علم و عرفان حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمة اللہ علیہ اپنے خالق حقیقی سے اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے۔
قطعۂ تاریخ وصال
خواجہ عبدالخالق آن قطب زمان      غجدوانش بود مراد و مت نیز
خیز چوں آمد خطاب او ز حق     گشت تاریخ وفات خواجہ خیز
گفت با او خیز جبار عزیز
    آپ کا مزار پرانوار غجدوان بخارا (موجودہ ازبکستان) میں ہی واقع مرقع خاص و عام ہے۔

۱۳۹۲ آذر ۱۳, چهارشنبه

مکتوب ششم قسط ۴ کی شرح

 

 

بینہ ۶


عارف کو عالمِ وجُوب کے مشاہدے کے دوران رویتِ قلبی نصیب ہوتی ہے رویتِ بصری کا دنیا میں وقوع محال ہے کیونکہ اگر رویتِ قلبی کا اثبات نہ کیا جائے تو عین الیقین اور حق الیقین کے معنی واضح نہیں ہوسکتے یہ مسئلہ صوفیاء کے نزدیک مختلف فیہ ہے بعض نے مرتبہِ وجوب کے ادراک بلکہ درک ِ ادراک کا اثبات فرمایا ہے اور بعض نے سکوت اور بعض نے انکار سے کام لیا ہے تفصیلات آئندہ پر چھوڑ دی جاتی ہیں واللہُ الْمُوَفِّقُ

عارف کا مرتبہِ حقُ الیقین


حضرت امامِ ربّانی قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ عارف حقُ الیقین کے مرتبے میں "عین نادانی میں باشعور ہوتا ہے اور عین حیرت میں باحضور" اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس کے اعتبار سے باشعور ہوتا ہے اور رپوح کے اعتبار سے باحضور ہوتا ہے کیونکہ نزول کے وقت عالم اس کے نفس کا مشہود ہوتا ہے اس لیے نفس کے اعتبار سے باشعور ہوتا ہے اور عروج کے وقت وجودِ عالم سے حیرت میں ہوتا ہے اور عالمِ وجوب سے حضور میں ہوتا ہے اس لیے روح کے اعتبار سے باحضور ہوتا ہے اس فرمان کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ عارف رُوح کے اعتبار سے وجودِ عالم سے حیرت و نادانی میں ہوتا ہے اور عالمِ وجوب کے مشاہدے میں رُوح کے اعتبار سے حضور میں ہوتا ہے۔

تجلّی آفاقی و انفسی


سالک جب سیرِ انفسی کے دوران ولایتِ صُغریٰ (ولایاتِ ظلّیہ) کے مقام کے ساتھ ممتاز ہوتا ہے تو وہ جو تجلی بھی دیکھتا ہے اپنی ذات میں دیکھتا ہے نیز معرفت یا حیرت بھی اپنی ذات میں ہی ملاحظہ کرتا ہے اور اس تجلی میں اسکی حیرت کی وجہ یہ ہے کہ وہ عالم وجوب کی بے کیف تجلی ہوتی ہے جو سالک کے عدمِ ادراک کی وجہ سے سببِ حیرت بن جاتی ہے اس کو تجلی انفسی کہتے ہیں اس مقام میں سالک کوشش کرتا ہے کہ تجلی آفاقی (جو تجلی انفسی کا ظل ہے) منقطع ہوجائے کیونکہ جب تک تجلی آفاقی منقطع نہ ہوجائے فنائے کامل حاصل نہیں ہوتی اور جب فنا ناقص ہوگی تو بقا بھی ناقص ہوگی اس لیے بقا بقدر فنا ہوا کرتی ہے اور فنائے مطلق و مطلق فنا میں فرق یہ ہے کہ فنائے مطلق فنائے تام ہے اور مطلق فنا فنائے ناقص ہے فنائے مطلق میں سالک کو ماسویٰ کا نسیانِ تام ہوجاتا ہے اور اسکا لطیفہ اپنے مبداءِ فیض تک پہنچ جاتا ہے جبکہ مطلق فنا میں ایسا نہیں ہوتا۔ مولانا روم مستِ بادہِ قیوم علیہ الرحمۃ نے فرمایا

بے فنائے مطلق و جذبِ قوی
کَے حریم وَصل را محرم شوی

واضح ہو کہ عارف کا یہ شہود سیرِ انفسی کے دوران ولایتِ صُغریٰ (جسکو ولایتِ ظلیہ بھی کہتے ہیں) کے حصول کے وقت ہوتا ہے لیکن جس وقت عارف کمالاتِ ولایتِ نبوت سے مشرف ہوتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ شہودِ انفسی بھی ظِلالِ مطلوب سے ایک ظِلّ ہے اور مطلوب ابھی ماوراء ہے۔

مطلوب آفاق و انفس سے وراء ہے

حضرت امام ربانی قدس سرہ نے حضرت خواجہ بزرگ خواجہ نقشبند اویسی بُخاری رضی اللہ عنہ کا جو تائیدی قول نقل فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے دونوں بزرگ اس وقت کمالاتِ ولایت کے مقام میں تھے اور شہودِ انفسی کو اصل اور مقصود جانتے تھے لیکن اسکے بعد جب کمالاتِ ولایتِ نبّوت کے مرتبے سے مشرف ہوئے تو حضرت امام ربّانی نے فرمایا "مطلوب ورائے آفاق و انفس است" یعنی مطلوب آفاق اور انفس سے بہت آگے ہے اور حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے فرمایا "ہرچہ دیدہ شد و دانستہ شد آں ہمہ غیر است" یعنی جو کچھ دیکھا گیا اور جانا گیا وہ سب کچھ غیر(غیرِ خدا) ہے۔

۱۳۹۲ آذر ۱۲, سه‌شنبه

مکتوب ششم قسط ۴

متن


وعلمی کہ پیش از چنین جہالت حاصل شود از حیز اعتبار خارج است باوجودِ آن اگر علم است در خود است و اگر شہود است ہم در خود و اگر معرفت است یا حیرت نیز در خود است تازمانیکہ نظر در بیرون است بی حاصل است اگرچہ در خود ہم نظر داشتہ باشد نظر از بیرون بالکل منقطع می باید کہ شود حضرت خواجہ بزرگ قدس اللہ سرہ میفرمایند کہ اہل اللہ بعد از فنا و بقا ہر چہ می بینند در خود می بینند و ہر چہ مے شناسند در خود مے شناسند و حیرتِ ایشان در وجودِ خود است

ترجمہ: اور وہ علم جو اس قسم کی جہالت سے پہلے حاصل ہوتا ہے وہ احاطہِ اعتبار سے خارج ہے (یعنی اعتبار کے لائق نہیں ہے) اس حالت کے باوجود اگر علم ہے تو اپنے آپ میں ہے اور اگر شہُود ہے تو وہ بھی اپنے آپ میں ہے اور اگر معرفت یا حیرت ہے تو وہ بھی اپنے آپ میں ہی ہے جب تک نظر باہر کی اشیاء میں ہے بے حاصل(بیکار) ہے اگرچہ اپنے آپ پر بھی نظر رکھتا ہو بیرونی اشیاء سے نظر بالکل منقطع ہوجانی چاہئیے حضرت خواجہ بزرگ (خواجہ بہاوالدین نقشبند بخاری قدس اللہ سرہ) فرماتے ہیں کہ اہلُ اللہ فنا و بقا کے بعد جو کچھ دیکھتے ہیں اور انکی حیرت اپنے وجود ہی میں ہے۔

شرح


عارف دو قسم کے علم رکھتا ہے اولاً ماسِوَی اللہ کا علم ثانیاً ذاتِ حق تعالیٰ کا علم آپ فرماتے ہیں کہ جو علم حیرت و جہل سے پہلے حاصل ہوتا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ ماسِوَی اللہ کا وہ علم جو فنا سے قبل ہے وہ تو ہر ایک کو حاصل ہے ہوتا ہے لیکن بے حاصل ہوتا ہے یہاں عارف کے علم سے مُراد وہ علم ہے جو عارف کو فنا اور نسیانِ ماسِوَی اللہ کے بعد حاصل ہوتا ہے اور وہ ذات حق تعالیٰ کا علم ہے۔

بینہ ۵


واضح ہو کہ ذات حق تعالیٰ کے علم سے عالمِ وجوب کا مشاھدہ یا رویتِ قلبی مُراد ہے اور حدیث لَاَتَتَفَکَّرُوْا فِی الْخَالِقِ[۱](ترجمہ: خدا کی ذات میں مت گور و فکر کرو!) میں جس تفکُّر سے نہی وارد ہے وہ تفکّپر فی الذّات ہے یا کیفیت، مثال اور مقدار کا تفکر ہے جس کو فارسی میں تفکر چونی و چندی کہا گیا ہے۔ عارف جب فنا و بقا کی منزلیں طے کرلیتا ہے وہ تفکر بے کیف و کم اور ادراکِ بے چون کی صلاحیت سے نوازا جاتا ہے اور یہ رپوح کا مرتبہِ کمال ہے جیسا کہ عالمِ ارواح بے چپون ہے اور رُوحوں کو عالمِ ارواح میں مشاہدہ کی دولت حاصل تھی اور حدیث تَفَکُّرُ سَاعَۃِِ خَیْرُُ مِّنْ قِیَامِ لَیْلَۃِِ[۲](ترجمہ: فکر کی ایک ساعت تمام شب کے قیام سے بہتر ہے) میں تفکر سے مراد تفکر بے چونی ہے جس کو تفکر فی الصفات کہتے ہیں۔

عارف کا مرتبہِ نزول


عارف کے مرتبہِ نزول کی دو قسمیں ہیں۔

پہلا نزول


کمالاتِ ولایت کے حصول کے وقت ہوتا ہے جبکہ عارف کا نفس عروج کے بعد نزول کرتا ہے اور اسکی روح عروج میں رہتی ہے اس حالت میں نفس ماسِوَی اللہ کا مشاھدہ کرتا ہے اور رپوحِ عالمِ وُجوب کے مشاھدے میں مصروف رہتی ہے۔

دوسرا نزول


کمالاتِ نبوت کے حصول کے وقت ہوتا ہے جبکہ عارف کا نفس اور اسکی رُوح دونوں نزول کرتے ہیں اور اسکا ایمانِ شہودی دوبارہ ایمانِ غیبی کے ساتھ تبدیل ہوجاتا ہے اس حالت میں عارف مُتخلَّقْ بِاَخْلاقِ اللہ ہوجاتا ہے واجب اور ممکن ہر دو اس کے معلوم ہوتے ہیں یعنی ذاتِ حق اور ماسِویٰ دونوں کیساتھ اس کا علمی تعلق اور رابطہ ہوتا ہے اس مرتبے میں عارف بادشاہ کے مُقرب وزیر کیطرح ہوتا ہے جو بادشاہ کی حضوری میں بیٹھ کر اُمورِ عالم کی تنظیم پر بھی مامور ہوتا ہے اور جب چاہتا ہے بادشاہ کو بھی دیکھ لیتا ہے۔
_________________________________________________
۱۔ کنز العمال ص ۱۰۶ ج ۳
۲۔ کنزالعمال ص ۱۰۷ ج ۳

۱۳۹۲ آذر ۱۱, دوشنبه

مکتوب ششم قسط ۳ کی شرح

 

 

حَیرت و جَہل


حَیرت و جَہل سے مُراد اشیائے کائنات سے لاتعلقی و بے خبری ہے جب کثرتِ ذکر اور فرطِ مُحبت کے غلبے سے عارف اپنے محبوبِ حقیقی کے مشاھدے میں ڈوب جاتا ہے اور محبوب کے سوا سب کچھ اس کی نظر سے پوشیدہ ہوجاتا ہے اور مرتبہِ احدیت میں محو ہو کر تجلی اسمِ ھُو کا مشاھدہ کرتے ہوئے انکشافِ حقیقت پر ہکا بکا رہ جاتا ہے تو اسی حالت کو حیرت و جہل کہا جاتا ہے لیکن یہ حیرت و جہل محمود ہے نہ کہ مذموم اسی کو صوفیاءِ کرام فنائے مُطلق مرتبہِ جمع اور اِدراکِ بسیط بھی کہتے ہیں۔ شطحیّاتِ اےولیاء مثلاً اَنَا الْحَقْ ، سُبْحَانِیْ مَااَعْظَمَ شَانِیْ، لَیْسَ جُبَّتِئ سِوَی اللہ سب اسی مرتبے کے اثرات و ثمرات ہیں اَلسُّکَاریٰ مَعْذُوْرُوْن کے مطابق ان کے ایسے اقوالِ سُکریہ کی تاویل کی ہے۔

بینہ ۳


حَیرت و جَہل کے دائمی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک عارف مرتبہ عُروج میں رہتا ہے اسے کوئی چیز یاد نہیں رہتی اور نسیانِ کُلی حاصل ہوجاتا ہے۔ اس کی بُری عادتیں اچھی عادتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں عارف سے اس کیفیت کا زائل نہ ہونا ہی دائمی حیرت و جہل ہے اگر سالک کو کبھی اشیائے کائنات بھول جائیں اور کبھی یاد آجائیں تو یہ فنائے مُطلق نہیں بلکہ مطلق فنا ہے جو فنائے ناقص کی علامت ہے کیونکہ علمُ الیقین اور عینُ الیقین ایک دوسرے کی نقیضیں ہیں۔ علمُ الیقین کے مرتبے میں وجُودِ بشری باقی ہوتا ہے اور عینُ الیقین کے مرتبے میں وجودِ بشری فانی ہوجاتا ہے اسی لیے مرتبہِ علم الیقین میں سالک کو ماسِویٰ کی یاد آتی رہتی ہے لیکن مرتبہِ عین الیقین میں سب یادیں ختم ہوجاتی ہیں اسی مرتبے میں سالک عالمِ وجوب کا مشاھدہ کرتا ہے جہاں اشیاء کے وجود و عَدم اور نفی و اِثبات کے متعلق لب کُشائی نہیں ہوسکتی یہاں تمام اشیاء سے بے خبری و نادانی لازمی امر ہے لیکن حقُ الیقین کا مرتبہ مذکورہ دونوں مرتبوں سے بہت بُلند ہے

مراتبِ یقین


علم الیقین


صوفیاءِ کرام نے مشاہدہِ ذات کے بارے میں یقین کو تین مرتبوں میں تقسیم فرمایا ہے علم الیقین اللہ تعالیٰ کی ان آیتوں اور نشانیوں کے مشاہدہ کرنے سے مُراد ہے جو اسکی قدرت پر دلالت کرتی ہیں سالک کو عُروج سے پہلے جو علم آتا ہے وہ علم الیقین کہلاتا ہے۔اس مرتبے میں وجودِ بشری عنصری باقی رہتا ہے اور سالک مقام فنا تک نہیں پہنچ سکتا۔ ان نشانیوں کے شہود کو سیرِ آفاقی کہتے ہیں اور یہ سب کچھ سالک اپنے باہر میں تلاش کرتا ہے تصوف کی اصطلاح میں اس کو سیر مستطیل بھی کہتے ہیں۔
یہ مشاہدہ چونکہ مقصود کی خبر نہیں دیتا اور سوائے نشانی اور دلیل کے اس کا کچھ حضور نہیں بخشتا اس لیے دھویں اور گرمی کے مشاہدہ کیطرح ہے جو آگ کے وجود پر رہنمائی کرتا ہے۔

عینُ الیقین


علمُ الیقین سے حق تعالیٰ کی قُدرت کا مشاہدہ کرنے کے بع جو مشاہدہ حق تعالیٰ کی ذات اور حُضور میں حاصل ہوتا ہے عینُ الیقین کہلاتا ہے اور وہ بعض کے نزدیک سالک کے اپنے نفس میں ہوتا ہے اسی لیے کہا گیا ہے مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ[۱](ترجمہ: جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا) اس ذاتی شہود اور حضور کو سیرِ انفسی کہتے ہیں اس کا نام سیرِ مُستدیر بھی ہے اس مشاہدہ میں سراسر حَیرت و جہل ہے علم کی اس میں گنجائش نہیں ہے اور سالک مَنْ عَرَفَ رَبَّہ کَلَ لِسَانُہ (ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچانا اسکی زبان گونگی ہوگئی) کا مِصداق ہوجاتا ہے۔
سالک اس مرتبے میں تکمیلِ عُروج کے وقت عالمِ وُجوب کا مشاہدہ کرتا ہے اس لیے اس کا وجود بشری عنصری باقی نہیں رہتا اور مقامِ فنائے مطلق حاصل ہوجاتا ہے۔

حَقُ الیقین


یہ مرتبہ پہلے دونوں مرتبوں سے بلند ہے جب عارف فنا کے بعد سَیر فی اللہ کے مقام میں بقابِاللہ سے مشرف ہوتا ہے اور اسکا مشاہدہ حقِ تعالیٰ کیساتھ ہوتا ہے نہ کہ عارف کے اپنے ساتھ اور بِیْ یَسْمَعُ وَبِیْ یُبصِرُ (ترجمہ: مجھ ہی سے سنتا اور مجھ ہی سے دیکھتا ہے) کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے تو فنائے مطلق حاصل کرنے کیلئے اس کو حقِ تعالیٰ محض اپنی عنایت سے ایک ایسا وجود (موہوبِ حقّانی) عطا کرتا ہے کہ عارف سُکر اور بیخودی سے رہائی پاکر صحو اور ہوشیاری میں آجاتا ہے اور اس مقام میں علم اور عین ایک دوسرے کا حجاب نہیں رہتے بلکہ عارف عین مشاہدہ کی حالت میں عالم اور عین علم کی حالت میں مشاہدہ کرنے والا ہوتا ہے یہ فنا کے بعد بقا باللہ کا مرتبہ ہے اس مرتبے کو تَخَلُّقْ بِاَخْلَاقِ اللہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہی مرتبہ حقُ الیقین کہلاتا ہے جہاں عروجی مراتب کی تکمیل کے بعد عارف مراتبِ نزول کی طرف مُستعد ہوتا ہے اس وقت اس کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم اور مَاسِوَی اللہ کا علم (دونوں علم) حاصل رہتے ہیں۔

بینہ ۴


یقین کے ان تینوں مرتبوں کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص مضبوط دلیلوں اور قرینوں سے یہ بات جان لے کہ آگ کی تاثیر جلانا ہے یہ علمُ الیقین ہے اور اگر کسی کو آگ میں جلتا ہوا دیکھ لے تو یہ عین الیقین ہے اور اگر خود آگ میں جل کر مرجائے تو یہ حقُ الیقین ہے۔
_____________________________________
۱۔ مرقاۃ ص ۱۵۰ ج ۱