۱۳۹۲ آبان ۲۸, سه‌شنبه

مکتوب ششم قسط ۱

 

 

ملحوظہ


در بیانِ حصولِ جذبہ و سلوک و تربیت یافتن بہر دو صفتِ جمال و جلال و بیانِ فنا و بقا و مایتعلّق بذٰلک و بیانِ فوقیّتِ نسبتِ نقشبندیہ نیز بہ پیرِ بزرگوارِ خود نوشتہ اند۔

ترجمہ: حصولِ جذبہ و سلوک و تربیت پانا، دو صفتِ جلال و جمال کیلئے اور فنا و بقا اور ان کے متعلقات کے بیان میں اور نسبتِ نقشبندیہ کی فوقیت کے بیان میں اپنے پیرِ بزرگوار کو لکھا ہے۔

عرضداشت


کمترینِ بندگان احمد آنکہ مُرشد علیٰ الطلاق جلّ شانہ بہ برکتِ توجہ عالی بہر دو طریقِ جذبہ و سلوک تربیت فرمود و بہر دو صِفتِ جمال و جلال مربیّٰ ساخت حالا جمال عینِ جلال است و جلال عینِ جمال

ترجمہ: حضور کا کمترین خادم احمد عرض کرتا ہے کہ مطلق طور پر مُرشد یعنی اللہ تعالیٰ جَلَّ شَانُہ نے آنجناب کی توجہِ عالی کی برکت سے جذبہ اور سلوک کے دونوں طریقوں اور جمال و جلال کی دونوں صفتوں سے تربیت فرمائی ہے اب جمال عینِ جلال ہے اور جلال عینِ جمال۔

شرح


ابتداءِ مکتوب میں حضرت امامِ ربّانی قُدِسَ سِرُّہ نے ذاتِ حقّ  سُبحانہ و تعالےٰ کیلئے مُرشد عَلیْ الاِطلاق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کیونکہ رُشد و ہدایت دراصل اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر موقوف ہے اور وہی حقیقی طور پر مُرشد و ہادی ہے بندگانِ خُدا پر لفظ مُرشد و ہادی کا اِطلاق مَجازاً ہے بعد ازاں حضرت امامِ ربّانی قُدِّسَ سِرُّہ نے اپنے متعلق جذبہ و سلوک کے دونوں طریقوں اور جمال و جلال کی دونوں صفتوں سے تربیتِ باطنی کی نعمت حاصل ہونے کا اِظہار فرمایا ہے اس مضمون  کو قدرے تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے تاکہ اصل مفہوم واضح ہوسکے۔

جذبہ و سلوک


جذبہ


جذبہ سَیرِ انفسی کا نام ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور مُرشدِ کامل کی توجہّات سے سَیرِ انفُسی میں عالمِ امر کے لطائف کا تزکیہ ہوجاتا ہے اور لطائف اپنی اصل میں فنا ہوجاتے ہیں یہ کیفیّتِ جذب ہے اور اس تربیت کے حاصل کرنے والے کو مجذوب کہتے ہیں۔

سُلوک


سُلوک سَیرِ آفاقی کا نام ہے۔ مُرشدِ کامل کی ہدایت کے مطابق اِتّباعِ سُنَت و شریعت اور ریاضت و مجاھدہ کے ذریعے طہارتِ نفس و عناصر حاصل سَیرِ آفاقی ہے اس کو سلوک کہتے ہیں اور اس قسم کی تربیّت حاصل کرنے والے کو سالِک کہا جاتا ہے۔

بیّنہ ۱


جذبہ سُلوک سے مُقدّم ہو تو ایسے مُرید کو مجذوب سالک کہتے ہیں حضراتِ نقشبندیہ جذبے کو سلوک پر مقدم رکھتے ہیں اسی لئے اکثر نقشبندی صوفیا مجذوب سالک ہوتے ہیں دیگر سلاسل کے بزرگ سلوک کو جذبے پر مُقدم کرتے ہیں اسی لیے ان کے اکثر صوفیاء سالک مجذُوب کہلاتے ہیں۔
یہاں مجذوب کا عوام میں متعارف معنیٰ مُراد نہیں بلکہ مجذوب کا لفظ توجّہِ شیخ سے فیضیاب ہونے والے پابندِ شریعت صپوفی پر استعمال فرمایا ہے۔

اقسامِ جذبہ

جذبہ کی دو قسمیں ہیں
(۱) جذبہِ بدایت    (۲) جذبہِ نہایت
جذبہِ بدایت کو جذبہِ صُوری اور جذبہِ نہایت کو جذبہِ حقیقی کہتے ہیں جذبہِ بدایت سلسلہ نقشبندیہ کا خاصہ ہے جو حضرت خواجہ نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت کا خصوصی فیضان ہے۔ اِندراجُ النہایت فِیْ البدایت کا بھی یہی مفہُوم ہے جذبہِ نہایت تمام سلاسلِ طریقت میں مشترک ہے۔

تعبیراتِ جمال و جلال

صوفیائے کرام کے نزدیک جمال و جلال کے متعدد مفہوم ہیں مثلاً 
*جمال سے مُراد اللہ تعالیٰ کا اِنعام و اکرام ہے جو بصُورتِ راحت و رحمت اور صحت و شفاء ظاہر ہوتا ہے۔
*جلال سے مراد اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب ہے جو بصُورتِ رنج و الم و تکلیف و مصیبت ظاہر ہوتا ہے۔
*جمال سے مُراد تجلیِ لُطف و رحمت ہے تمام افعال  و آثار خیرات و طاعات اور اعمالِ عبادات و حسنات کا صدور اسی تجلیِ جمال سے وابستہ ہے۔
*جلال سے مُراد تجلیِ قھاری ہے تمام افعال و آثارِ ضلالت و شرارت اور اعمالِ کثافت کا صدور اسی تجلّیِ جلال سے ظاہر ہوتا ہے۔
*جمال سے مرتبہِ وحدت اور جلال سے مرتبہِ اَحدیّت بھی مُراد لیا گیا ہے۔
*جمال سے التفاتِ محبوب اور جلال سے استغناءِ محبوب مُراد ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ

بیّنہ ۲

سالک جب تزکیہِ نفس کے بعد مقامِ معرفت پر فائض ہوتا ہے اور جذبہ و سلوک کی دونوں جہتوں سے حصّہ پاتا ہے اور جمالی و جلالی صفتوں کے ساتھ تربیت پاتا ہے تو اسکو ذات حق سُبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ محبّتِ ذاتی کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے اس مرتبے میں اسے جمال اور جلال دونوں یکساں نظر آتے ہیں کیونکہ جمال اور جلال دونوں اللہ تعالیٰ کے فعل ہیں محبوب کے فعل بھی محبوب ہوتے ہیں  اسی لیے جمال و جلال کی خصوصیات اسکی نظر سے اوجھل رہتی ہیں اور اسکی ساری توجہ صرف محبوب کی طرف رہتی ہے۔

هیچ نظری موجود نیست:

ارسال یک نظر