متن
وعلامتِ این تربیّت متحقِّق شُدنست بمحبّتِ ذاتی پیش از تحقّقِ آن امکان ندارد و محبّتِ ذاتیّہ علامتِ فناست و فنا عبارت عبارت از نسیانِ ماسواست پس تازمانیکہ علُوم بتمام از ساحت سینہ رُفتہ نشود و بجہلِ مطلق متحقّق نشود از فنا بہرہ ندارد واین حیرت و جَہل دائمی است اِمکانِ زوال ندارد نہ آنست کہ گاہے حاصل شود گاہے زائل گردد غایۃ مافی الباب پیش از بقا جہالتِ محض است و بعد از بقا جہالت و علم باہم جمع اند در عینِ نادانی بہ شعور است ودر عینِ حَیرت بحضور کہ این موطنِ حقّ الیقین است کہ علم و عین حجابِ یکدیگر نیستند
ترجمہ:اور اس تربیت کی علامت محبتِ ذاتی کیساتھ متحقق ہونا ہے اس کے تحقق سے پہلے ممکن نہیں ہے اور محبتِ ذاتی فنا کی علامت ہے اور فنا سے مُراد اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کا فراموش ہوجانا ہے پس جب تک تمام علوم پورے طور پر سینے کے میدان سے صاف نہ ہوجائیں اور سالک جہلِ مُطلق کے ساتھ متحقق نہ ہوجائے وہ فنا سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا اور یہ حیرت و جہل دائمی ہے اس کا زائل ہونا ممکن نہیں ہے اور ایسا نہیں ہے کہ کبھی حاصل ہوجائے اور کبھی زائل ہوجائے حاصل کلام یہ ہے کہ مقام بقاباللہ سے پہلے جہالتِ محض ہے اور مقام بقابِاللہ حاصل ہونے کے بعد جہالت اور علم دونوں جمع ہوجاتے ہیں سالک عین نادانی کی حالت میں شعور کے ساتھ ہوتا ہے اور عین حیرت کے وقت میں حضُور کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ مُقام حقُ الیقین کا مقام ہے کہ اس میں علم اور عین ایک دوسرے کے لیے حجاب نہیں ہیں۔
شرح
محبتِ ذاتیہ علامتِ فنا ہے
سال کو جب عالمِ امر کی طرف عروج نصیب ہوتا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی جمالی اور جلالی صفتوں کا اِنعکاس (پَرتو) ہوتا ہے تو وہ ان صفات سے متصف اور رنگین ہوکر فنّا فی الصفات ہوجاتا ہے۔ اس مقام پر سالک تزکیہ نفس سے مشرف ہوکر اللہ تعالیٰ کی ذاتی مُحبّت میں مبتلا ہوجاتا ہے محبتِ ذاتی کے مرتبے میں سالک کے لیے جمال و جلال کی متقابل صفتیں آپس میں اس طرح مُتحّد ہوجاتی ہیں کہ سالک کو جمال عینِ جلال اور جلال عینِ جمال معلوم ہوتا ہے یعنی دونوں صفتیں اس کو برابر لُطف اندوز کرتی رہتی ہیں کیونکہ تزکیہِ نفس کی وجہ سے نفس انعام و اِلام اور راحت و آلام سے بے نیاز ہوکر اپنے جبلّی تقاضوں سے دست بردار ہوجاتا ہے اور جلال و جمال کو اپنے محبوب کے افعال و صفات سمجھ کر محبوب و مرغوب بنا لیتا ہے۔ وہ عزت و ذلت، رحمت و زحمت دونوں کو محبوب کی عطا سمجھ کر قبول کرتا ہے اور اس کے نزدیک کُلُّ مَایَفْعَلُہُ الْمَحْبُوْبُ مُحْبُوبُُ محبوب کے افعال و اعمال بھی محبوب ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا جمال و جلال کی خاصیتوں اور انعام کی راحتوں اور ایلام کی مصیبتوں پر اسکی نظر نہیں پڑتی بلکہ محبوب ہی ہر وقت پیشِ نظر رہتا ہے سالک کی اسی کیفیت کو محبتِ ذاتیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہی کیفیت علامتِ فنا ہے۔
حضرتِ اِمامِ ربّانی قُدِّسَ سِرُّہ فرماتے ہیں کہ جمال و جلال کا اِتّحاد اور محبتِ ذاتی کا تحقق فنا کی علامت ہے اور فنا نسیانِ ماسِوَی اللہ سے عبارت ہے جب تک سالک کے سینے کے میدان سے تمام علوم پورے طور پر صاف نہ ہوجائیں اور جہلِ مطلق کا تحقق نہ ہوجائے فنائے کامل حاصل نہیں ہوتی جہلِ مُطلق دراصل فنائے مطلق ہی کا دُوسرا نام ہے۔ حافظ شیرازی علیہ الرحمۃ نے فرمایا
تو از سرائے طبیعت نمی روی بیروں
کُجا بکوئے حقیقت گذر توانی کرد