۱۳۹۲ آبان ۲۹, چهارشنبه

مکتوب ششم قسط ۳

 

 

متن


وعلامتِ این تربیّت متحقِّق شُدنست بمحبّتِ ذاتی پیش از تحقّقِ آن امکان ندارد و محبّتِ ذاتیّہ علامتِ فناست و فنا عبارت عبارت از نسیانِ ماسواست پس تازمانیکہ علُوم بتمام از ساحت سینہ رُفتہ نشود و بجہلِ مطلق متحقّق نشود از فنا بہرہ ندارد واین حیرت و جَہل دائمی است اِمکانِ زوال ندارد نہ آنست کہ گاہے حاصل شود گاہے زائل گردد غایۃ مافی الباب پیش از بقا جہالتِ محض است و بعد از بقا جہالت و علم باہم جمع اند در عینِ نادانی بہ شعور است ودر عینِ حَیرت بحضور کہ این موطنِ حقّ الیقین است کہ علم و عین حجابِ یکدیگر نیستند

ترجمہ:اور اس تربیت کی علامت محبتِ ذاتی کیساتھ متحقق ہونا ہے اس کے تحقق سے پہلے ممکن نہیں ہے اور محبتِ ذاتی فنا کی علامت ہے اور فنا سے مُراد اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کا فراموش ہوجانا ہے پس جب تک تمام علوم پورے طور پر سینے کے میدان سے صاف نہ ہوجائیں اور سالک جہلِ مُطلق کے ساتھ متحقق نہ ہوجائے وہ فنا سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا اور یہ حیرت و جہل دائمی ہے اس کا زائل ہونا ممکن نہیں ہے اور ایسا نہیں ہے کہ کبھی حاصل ہوجائے اور کبھی زائل ہوجائے حاصل کلام یہ ہے کہ مقام بقاباللہ سے پہلے جہالتِ محض ہے اور مقام بقابِاللہ حاصل ہونے کے بعد جہالت اور علم دونوں جمع ہوجاتے ہیں سالک عین نادانی کی حالت میں شعور کے ساتھ ہوتا ہے اور عین حیرت کے وقت میں حضُور کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ مُقام حقُ الیقین کا مقام ہے کہ اس میں علم اور عین ایک دوسرے کے لیے حجاب نہیں ہیں۔

شرح


محبتِ ذاتیہ علامتِ فنا ہے


سال کو جب عالمِ امر کی طرف عروج نصیب ہوتا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی جمالی اور جلالی صفتوں کا اِنعکاس (پَرتو) ہوتا ہے تو وہ ان صفات سے متصف اور رنگین ہوکر فنّا فی الصفات ہوجاتا ہے۔ اس مقام پر سالک تزکیہ نفس سے مشرف ہوکر اللہ تعالیٰ کی ذاتی مُحبّت میں مبتلا ہوجاتا ہے محبتِ ذاتی کے مرتبے میں سالک کے لیے جمال و جلال کی متقابل صفتیں آپس میں اس طرح مُتحّد ہوجاتی ہیں کہ سالک کو جمال عینِ جلال اور جلال عینِ جمال معلوم ہوتا ہے یعنی دونوں صفتیں اس کو برابر لُطف اندوز کرتی رہتی ہیں کیونکہ تزکیہِ نفس کی وجہ سے نفس انعام و اِلام اور راحت و آلام سے بے نیاز ہوکر اپنے جبلّی تقاضوں سے دست بردار ہوجاتا ہے اور جلال و جمال کو اپنے محبوب کے افعال و صفات سمجھ کر محبوب و مرغوب بنا لیتا ہے۔ وہ عزت و ذلت، رحمت و زحمت دونوں کو محبوب کی عطا سمجھ کر قبول کرتا ہے اور اس کے نزدیک کُلُّ مَایَفْعَلُہُ الْمَحْبُوْبُ مُحْبُوبُُ محبوب کے افعال و اعمال بھی محبوب ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا جمال و جلال کی خاصیتوں اور انعام کی راحتوں اور ایلام کی مصیبتوں پر اسکی نظر نہیں پڑتی بلکہ محبوب ہی ہر وقت پیشِ نظر رہتا ہے سالک کی اسی کیفیت کو محبتِ ذاتیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہی کیفیت علامتِ فنا ہے۔
حضرتِ اِمامِ ربّانی قُدِّسَ سِرُّہ فرماتے ہیں کہ جمال و جلال کا اِتّحاد اور محبتِ ذاتی کا تحقق فنا کی علامت ہے اور فنا نسیانِ ماسِوَی اللہ سے عبارت ہے جب تک سالک کے سینے کے میدان سے تمام علوم پورے طور پر صاف نہ ہوجائیں اور جہلِ مطلق کا تحقق نہ ہوجائے فنائے کامل حاصل نہیں ہوتی جہلِ مُطلق دراصل فنائے مطلق ہی کا دُوسرا نام ہے۔ حافظ شیرازی علیہ الرحمۃ نے فرمایا

تو از سرائے طبیعت نمی روی بیروں
کُجا بکوئے حقیقت گذر توانی کرد

۱۳۹۲ آبان ۲۸, سه‌شنبه

مکتوب ششم قسط ۲

 

 

متن


در بعضی حواشی رسالہِ قُدسیہ این عبارت را از مفہومِ صریح خود منحرف ساختہ بر مفہومِ موہومِ خود حمل کردہ است و عبارت محمول بر ظاہرِ خود ست قابلِ انحراف و تاویل نیست

ترجمہ: رسالہِ قُدسیہ کے بعض حاشیوں میں اس عبارت کو اپنے ظاہری مفہوم سے پھیر کر اپنے موہوم مطلب (اپنی سمجھ کے مطابق تاویل کردہ معنیٰ) پر حمل کیا ہے حالآنکہ عبارت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے لہٰذا طاہری معنی سے ہٹانے اور تاویل کے قابل نہیں ہے۔

شرح


حضرت امامِ ربّانی رَحْمۃُ اللہ عَلَیْہ نے رسالہ قُدسیّہ کی شرح کرنے والے کسی مُحشّی کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اس نے جمال و جلال کے ظاہری مفہوم کے برعکس اپنے وہم کے مطابق جمال و جلال کی تاویل کی ہے جبکہ جمال کا ظاہری مفہوم انعام و اکرام ہے اور جلال کا ظاہری مفہوم رنج و الم ہے مطلب یہ ہے کہ سالکین پر مُحبّتِ ذاتی کے مرتبے میں انعام و ایلام دونوں برابر ہوتے ہیں اور اس مفہوم کو نظر انداز کرنا کسی طرح مُناسب نہیں۔

رسالہ قُدسیّہ


یہ رسالہ مُبارک حضرت خواجہِ خواجگان سید محمد بہاو الدین نقشبند اویسی بُخاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ملفوظات اور ان کی تشریحات پر مُشتمل ہے جس کو حضرت خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ نے مرتب فرمایا ہے یہ رسالہ نقشبندی مکتبِ فکر کے لیے لائحہِ عمل کی حیثیت رکھتا ہے حضرت امامِ ربّانی نے مکتوبات میں جابجا اس رسالہ کی عبارات کا حوالہ دیا ہے۔

حضرت خواجہ مُحمّد پارسا قُدِّسَ سِرُّہ


حضرت خواجہ محمد پارسا کا اصل نام خواجہ محمد بن محمد محمُود الحافظی ہے آپ ۷۲۹ ھ بُخارا میں پیدا ہوئے حضرت خواجہ نقشبند بُخاری رَحْمَۃُ اللہ عَلَیہ کی خدمت میں رہ کر قصرِ عارفاں میں رُوحانی تربیت حاصل کی آپ نے طریقتِ نقشبندیہ کے فروغ کے لیے بے بہا خدمات انجام دیں آپ کی گراں قدر بے بہا تصانیف دُنیائے علم و تصوف میں مُعتبر اور مُستند تسلیم کی جاتی ہیں۔ آپ کا وصال بعمر تراسی (۸۳) سال ۸۲۲ ھ بروز جمعرات مدینہ مُنوّرہ میں ہوا اور جنت البقیع میں حضرت سیدنا عثمانِ غنی رَضِی اللہ تعالیٰ عَنہ کے قُبّہ شریفہ کے قریب مدفون ہوئے آپ کا سنِ وصال آپ کی معروف تالیف فصلُ الخطاب کے نام فصلِ خطابی کے اعداد سے نکلتا ہے۔

مکتوب ششم قسط ۱

 

 

ملحوظہ


در بیانِ حصولِ جذبہ و سلوک و تربیت یافتن بہر دو صفتِ جمال و جلال و بیانِ فنا و بقا و مایتعلّق بذٰلک و بیانِ فوقیّتِ نسبتِ نقشبندیہ نیز بہ پیرِ بزرگوارِ خود نوشتہ اند۔

ترجمہ: حصولِ جذبہ و سلوک و تربیت پانا، دو صفتِ جلال و جمال کیلئے اور فنا و بقا اور ان کے متعلقات کے بیان میں اور نسبتِ نقشبندیہ کی فوقیت کے بیان میں اپنے پیرِ بزرگوار کو لکھا ہے۔

عرضداشت


کمترینِ بندگان احمد آنکہ مُرشد علیٰ الطلاق جلّ شانہ بہ برکتِ توجہ عالی بہر دو طریقِ جذبہ و سلوک تربیت فرمود و بہر دو صِفتِ جمال و جلال مربیّٰ ساخت حالا جمال عینِ جلال است و جلال عینِ جمال

ترجمہ: حضور کا کمترین خادم احمد عرض کرتا ہے کہ مطلق طور پر مُرشد یعنی اللہ تعالیٰ جَلَّ شَانُہ نے آنجناب کی توجہِ عالی کی برکت سے جذبہ اور سلوک کے دونوں طریقوں اور جمال و جلال کی دونوں صفتوں سے تربیت فرمائی ہے اب جمال عینِ جلال ہے اور جلال عینِ جمال۔

شرح


ابتداءِ مکتوب میں حضرت امامِ ربّانی قُدِسَ سِرُّہ نے ذاتِ حقّ  سُبحانہ و تعالےٰ کیلئے مُرشد عَلیْ الاِطلاق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کیونکہ رُشد و ہدایت دراصل اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر موقوف ہے اور وہی حقیقی طور پر مُرشد و ہادی ہے بندگانِ خُدا پر لفظ مُرشد و ہادی کا اِطلاق مَجازاً ہے بعد ازاں حضرت امامِ ربّانی قُدِّسَ سِرُّہ نے اپنے متعلق جذبہ و سلوک کے دونوں طریقوں اور جمال و جلال کی دونوں صفتوں سے تربیتِ باطنی کی نعمت حاصل ہونے کا اِظہار فرمایا ہے اس مضمون  کو قدرے تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے تاکہ اصل مفہوم واضح ہوسکے۔

جذبہ و سلوک


جذبہ


جذبہ سَیرِ انفسی کا نام ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور مُرشدِ کامل کی توجہّات سے سَیرِ انفُسی میں عالمِ امر کے لطائف کا تزکیہ ہوجاتا ہے اور لطائف اپنی اصل میں فنا ہوجاتے ہیں یہ کیفیّتِ جذب ہے اور اس تربیت کے حاصل کرنے والے کو مجذوب کہتے ہیں۔

سُلوک


سُلوک سَیرِ آفاقی کا نام ہے۔ مُرشدِ کامل کی ہدایت کے مطابق اِتّباعِ سُنَت و شریعت اور ریاضت و مجاھدہ کے ذریعے طہارتِ نفس و عناصر حاصل سَیرِ آفاقی ہے اس کو سلوک کہتے ہیں اور اس قسم کی تربیّت حاصل کرنے والے کو سالِک کہا جاتا ہے۔

بیّنہ ۱


جذبہ سُلوک سے مُقدّم ہو تو ایسے مُرید کو مجذوب سالک کہتے ہیں حضراتِ نقشبندیہ جذبے کو سلوک پر مقدم رکھتے ہیں اسی لئے اکثر نقشبندی صوفیا مجذوب سالک ہوتے ہیں دیگر سلاسل کے بزرگ سلوک کو جذبے پر مُقدم کرتے ہیں اسی لیے ان کے اکثر صوفیاء سالک مجذُوب کہلاتے ہیں۔
یہاں مجذوب کا عوام میں متعارف معنیٰ مُراد نہیں بلکہ مجذوب کا لفظ توجّہِ شیخ سے فیضیاب ہونے والے پابندِ شریعت صپوفی پر استعمال فرمایا ہے۔

اقسامِ جذبہ

جذبہ کی دو قسمیں ہیں
(۱) جذبہِ بدایت    (۲) جذبہِ نہایت
جذبہِ بدایت کو جذبہِ صُوری اور جذبہِ نہایت کو جذبہِ حقیقی کہتے ہیں جذبہِ بدایت سلسلہ نقشبندیہ کا خاصہ ہے جو حضرت خواجہ نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت کا خصوصی فیضان ہے۔ اِندراجُ النہایت فِیْ البدایت کا بھی یہی مفہُوم ہے جذبہِ نہایت تمام سلاسلِ طریقت میں مشترک ہے۔

تعبیراتِ جمال و جلال

صوفیائے کرام کے نزدیک جمال و جلال کے متعدد مفہوم ہیں مثلاً 
*جمال سے مُراد اللہ تعالیٰ کا اِنعام و اکرام ہے جو بصُورتِ راحت و رحمت اور صحت و شفاء ظاہر ہوتا ہے۔
*جلال سے مراد اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب ہے جو بصُورتِ رنج و الم و تکلیف و مصیبت ظاہر ہوتا ہے۔
*جمال سے مُراد تجلیِ لُطف و رحمت ہے تمام افعال  و آثار خیرات و طاعات اور اعمالِ عبادات و حسنات کا صدور اسی تجلیِ جمال سے وابستہ ہے۔
*جلال سے مُراد تجلیِ قھاری ہے تمام افعال و آثارِ ضلالت و شرارت اور اعمالِ کثافت کا صدور اسی تجلّیِ جلال سے ظاہر ہوتا ہے۔
*جمال سے مرتبہِ وحدت اور جلال سے مرتبہِ اَحدیّت بھی مُراد لیا گیا ہے۔
*جمال سے التفاتِ محبوب اور جلال سے استغناءِ محبوب مُراد ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ

بیّنہ ۲

سالک جب تزکیہِ نفس کے بعد مقامِ معرفت پر فائض ہوتا ہے اور جذبہ و سلوک کی دونوں جہتوں سے حصّہ پاتا ہے اور جمالی و جلالی صفتوں کے ساتھ تربیت پاتا ہے تو اسکو ذات حق سُبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ محبّتِ ذاتی کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے اس مرتبے میں اسے جمال اور جلال دونوں یکساں نظر آتے ہیں کیونکہ جمال اور جلال دونوں اللہ تعالیٰ کے فعل ہیں محبوب کے فعل بھی محبوب ہوتے ہیں  اسی لیے جمال و جلال کی خصوصیات اسکی نظر سے اوجھل رہتی ہیں اور اسکی ساری توجہ صرف محبوب کی طرف رہتی ہے۔